یوکرین پر روس کے حملے کے بعد، یورپی ممالک جو روس سے گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، نے مرحلہ وار اپنا انحصار کم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔مختصر مدت میں، یورپی یونین کے بعض رکن ممالک، بشمول جرمن، اٹلی، نیدرلینڈز، اور آسٹریا اپنے پاور پلانٹس کو آگ لگانے کے لئے واپس کوئلے کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ نہ صرف عالمی ڈیکاربونائزیشن کے اہداف کے لئے ایک دھچکا ہوگا بلکہ ترقی پذیر معیشتوں میں توانائی کے بحران کو بھی بڑھا دے گا، جو توانائی، ایل این جی اور کوئلے کے دیگر سستے ذرائع کو حاصل کرنے میں مشکل محسوس کر رہی ہیں اور جیسے جیسے یورپی خطہ کوئلے سے پاور پلانٹس لگانا شروع کرتا ہے، اس سے کوئلے کی عالمی سپلائی پر بھی دبا ؤپڑے گا، جس سے کوئلے کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ایشیائی معیشتیں پہلے ہی ایل این جی کے حصول کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں کیونکہ یورپ روس کی گیس کو اس کے ساتھ تبدیل کرنے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے اور وہ نمایاں طور پر زیادہ قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہے جسے زیادہ تر ترقی پذیر معیشتیں برداشت نہیں کر سکتیں۔
بلومبرگ انٹیلی جنس کے مطابق، 2022 میں عالمی ایل این جی کی سپلائی تقریبا 455 ملین ٹن ہونے کی توقع ہے، جس میں سے تقریبا 318 ملین ٹن طویل مدتی معاہدوں کے تحت پہلے سے ہی معاہدہ کیا گیا ہے اور سپاٹ مارکیٹ میں صرف 136 ملین ٹن دستیاب ہوں گے۔ یورپی یونین کو روسی پائپ لائن گیس کو مکمل طورپر چھوڑنے کیلئے صرف 118 ملین ٹن ایل این جی درکار ہے۔ لہٰذا، یورپی نقطہ نظر سے، روسی گیس کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کے لئے سپاٹ مارکیٹ میں کافی ایل این جی دستیاب ہے، لیکن اس خطے میں صرف 24 درآمدی ٹرمینلز ہیں جو 65 ملین ٹن اضافی ایل این جی کو سنبھال سکتے ہیں۔کیا روس یورپ سے ایشیا ء کی طرف رُ خ کریگا؟ اس سوال کا سب سے آسان جواب یہ ہے کہ روس کے لئے قلیل مدت میں ایشیا ء کو قدرتی گیس کی سپلائی اس انداز میں بڑھانا ممکن نہیں ہو گا کہ وہ یورپی منڈی میں اپنی فروخت کی تلافی کرے اور عالمی سطح پر سپلائی کی رکاوٹوں کو کم کرے۔ 2021 میں ایشیا کو روس کی قدرتی گیس کی فروخت 33 بلین کیوبک میٹر (bcm) تھی جبکہ اس نے اسی عرصے میں یورپی منڈی میں 160-200 bcm قدرتی گیس برآمد کی۔
ایشیا کو جو قدرتی گیس روس سے ملتی ہے اس کا دو تہائی حصہ ایل این جی کی شکل میں ہے، اور خطے میں پہلے سے موجود ایل این جی پلس پائپ لائن انفراسٹرکچر روس کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ایشیا میں اپنی گیس کی برآمدات کو 80 بی سی ایم سے زیادہ بڑھا سکے، جس میں پائپ لائن گیس اور ایل این جی شامل ہیں۔روسی معیشت نے اب تک مغربی طاقتوں کی پابندیوں کے خلاف لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ روسی روبل مضبوط ہو رہا ہے اور اس وقت یورو اور امریکی ڈالر کے مقابلے دو سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کم حجم کے باوجود توانائی کی برآمدات سے روس کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے فوراً بعد اس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، اور اس نے معیشت کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے اصلاحی اقدامات اٹھائے۔ کرنسی کی قدر میں کمی سے بچانے کے لئے ابتدائی طور پر قرضے کی شرح 20 فیصد تک بڑھا دی گئی تھی، اس کے بعد سرمائے کی پرواز کو روکنے کے لئے اقدامات کیے گئے۔یوکرین روس جنگ کے نتیجے میں ممالک کے توانائی کے درآمدی بل میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس نے ترقی پذیر ایشیائی معیشتوں کو متاثر کیا ہے جو پہلے ہی کوویڈ 19 کے اثرات سے دوچار تھیں۔(بشکریہ دی نیوز، تحریر:کامل احمد،ترجمہ:ابوالحسن امام)