انصاف اور عالمی عدالت 

 The aftermath

دنیا کو امن و انصاف کا دور دورہ چاہئے جبکہ بڑے پیمانے پر ہونے والے مظالم کا احتساب بھی ضروری ہے۔ جنگی جرائم کے بارے میں عالمی طاقتوں کے انصاف کا معیار الگ الگ کیوں ہے؟ جیسا کہ سابق امریکی سفیر اسٹیفن ریپ نے حال ہی میں وضاحت دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگی جرائم جب کبھی اُور جہاں کہیں رونما ہوتے ہیں اِن سے متاثرہ افراد کو جزوی طور پر ہی انصاف ملتا ہے۔ یہ ابھی پچھلے مہینے ہی کی بات ہے کہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی سی) نے آخرکار غیر افریقی‘ جنوبی اوسیتیا کے روسی حمایت یافتہ علاقے کے شہریوں کے لئے وارنٹ جاری کئے تھے۔ ان پر جارجیا میں 2008ء کی جنگ کے دوران جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات ہیں۔ آئی سی سی نے صرف چند ایک واقعات کی تحقیقات کیں اور اِن تحقیقات میں ملوث افراد میں سے بھی کم کے خلاف مقدمہ چلایا گیا کیونکہ عدالت اپنے وسائل اور رسائی میں محدود ہے۔ برسوں سے‘ ریاستوں نے اِس ادارے کو بے توقیر کر رکھا ہے اور اس کو دیئے جانے والے مالی وسائل (بجٹ) کو بھی محدود کیا گیا ہے۔ ’آئی سی سی‘ کے ذریعہ مبینہ سرکاری جرائم کی تحقیقات کے جواب میں‘ کچھ ممالک جیسا کہ برونڈی اور فلپائن‘ نے عدالت سے اپنی رکنیت واپس لے کر جرائم کی تحقیقات کرنے کی آئی سی سی کی صلاحیت و ساکھ کو سخت متاثر کیا ہے۔ دیگر بشمول ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ادارے کی حیثیت اور اختیار کو کمزور کرنے کے لئے نہایت ہی شاطرانہ و نفیس مہمات چلائی ہیں۔ اس تناظر میں‘ عدالت اور اس کے کئی رکن ممالک کی جانب سے یوکرین پر روسی حملے کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے مظالم کے ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کا حالیہ عزم خوش آئند ہے۔ افریقہ میں مظالم کے متاثرین اور زندہ بچ جانے والوں کو بھی یوکرین میں جوابدہی کے سلسلے میں حاصل ہونے والی پیشرفت اور اسباق سے مستفید ہونا چاہئے۔ اس میں کیٹلاگ اور مظالم کا سراغ لگانے کے لئے ڈیجیٹل فرانزک تحقیقات کا نیا استعمال‘ قومی حکام کی جانب سے بین الاقوامی جرائم کی تیز رفتار کاروائی اور تفتیشی کوششوں کی
 نقل سے بچنے کی کوششیں شامل ہیں۔ افریقہ میں انصاف اور احتساب کی ضرورت روس کے یوکرین پر حملے سے پہلے کی نسبت کم نہیں اور آئی سی سی کا اپنا ایک کردار ہے جس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ یہ صورتحال لائق توجہ اُور غور ہے کہ جب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دارفور‘ سوڈان کی صورتحال کو سال دوہزارپانچ میں آئی سی سی کے حوالے کیا تھا‘ عدالت نے صرف ایک ملزم کو حراست میں لیا اور مقدمے کی سماعت شروع کی۔ دوہزاراُنیس میں سابق آمرانہ صدر عمر البشیر کی حکومت کے خاتمے اور ملک بھر میں سوڈانی شہریوں اور مظاہرین کے خلاف جاری مظالم کے الزامات کے باوجود‘ عالمی عدالت نے کہا کہ وہ صرف دارفور میں ہونے والے جرائم پر مقدمہ چلائے گی۔ افواہیں ہیں کہ خرطوم کے حکام البشیر کو ہیگ منتقل کر سکتے ہیں‘ جہاں اسے جنگی جرائم‘ انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے الزامات کا سامنا کرنا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دریں اثنا اطلاعات کے مطابق دارفور میں مظالم کا سلسلہ جاری ہے اُور عالمی طاقتیں بشمول عالمی عدالت انصاف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: شاہ رخ نواز راجہ۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)