متوازن اقتصادی ماڈل

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا بائیسواں اور اِس کے بعد ممکنہ تیئسواں پروگرام‘ گردشی قرض اور قرضوں پر لئے گئے قرض پریشان کن حقائق ہیں! زیادہ ادھار لینا اقتصادی مسائل کا حل نہیں ہوتا بلکہ مسئلے کا حل یہ ہے کہ کم ادھار لیا جائے اور اِس ادھار سے زیادہ کمایا جائے۔ پاکستان میں ادھار زیادہ اور کمائی کم ہے۔  شاید اب وقت آگیا ہے کہ بنیادی باتوں پر توجہ دی جائے اور ”زیادہ کمائیں اور کم قرض لیں“ کے اصول پر کام کیا جائے۔ ایک ایسا حل جس کا اعتراف آسان ہے لیکن اِس پر عمل درآمد شاید آسان نہیں ہوگا۔ یہ ایک ایسا لائحہ عمل ہو سکتا ہے جس پر ہماری فوری توجہ کی ضرورت ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں‘ اپنے منشور میں یہی نکات بطور ’چارٹر آف اکانومی‘ رکھتی ہیں اور اِس اقتصادی میثاق پر دستخط کرنے کے لئے بھی متفق ہیں جو پانچ سال کے وقفوں سے سنگ میل کی نشاندہی کرتی ہے کہ زیادہ کمائیں اور کم قرضہ لیں سے شروع ہوتے ہوئے ’زیادہ کمائیں اور بالکل بھی قرض نہ لیں“ اور بالآخر ”زیادہ کمائیں اور ذخائر بنائیں“ پر ختم ہوتی ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ اقتصادی میثاق (چارٹر) پاکستان کے آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے لیکن اِس کے لئے پانچ سالہ نہیں بلکہ کم سے کم پندرہ سالہ منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے یعنی پندرہ سال ملک میں سیاسی حکومتیں تو تبدیل ہوں لیکن اقتصادی لائحہ عمل تبدیل نہ کیا جائے۔ اور ہر آنے والی حکومت کی معاشی کامیابیوں کا تعین کرنے کیلئے اُس کی کارکردگی کا پیمانہ مقرر کیا جائے۔ 

پاکستان کا مفاد اِسی میں ہے کہ اِس لمحے قومی مفاد میں سیاست اور معیشت کو الگ الگ کیا جائے۔موجودہ اقتصادی صورتحال کا مختصر ترین تجزیہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ قرض لینے میں حرج نہیں لیکن اگر اِس سے زیادہ کمایا جائے بصورت دیگر قرض لینے سے گریز ہی بہتر ہے۔ پاکستان کے قرضوں کی کہانی ملک کے 75سالہ سفر سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم نے 1958ء میں ’آئی ایم ایف‘ کے پہلے پروگرام میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس کے بعد سے یہ آج تک ایک کے بعد ایک پروگرام میں جانا پڑ رہا ہے جبکہ ادارہ جاتی اور جی ٹو جی کے قرضوں میں بیک وقت اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس قرض کے علاوہ باعث پریشانی گردشی قرضہ بھی ہے‘ جو سال 2008ء میں 161 ارب روپے سے بڑھ کر مارچ 2022ء تک 2.46 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے اور یہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اِس دوران تیل‘ گیس اور بجلی کی فراہمی خطرے میں ہے۔ ہر پاکستانی 1 لاکھ 90 ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے اور چونکہ روپے کی قیمت میں استحکام نہیں اِس لئے یہ قرض روپے کی قدر کم ہونے کے ساتھ بڑھ بھی رہا ہے۔ پاکستان کو اپنے قرضے واپس کرنے کیلئے قرض نہیں لینا چاہئے اور نہ ہی قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے قرض لینا چاہئے کیونکہ یہ غیرترقیاتی عمل ہے۔ دو ٹوک الفاظ میں کہا جائے تو درحقیقت ہم ترقی کے لئے قرض نہیں لے رہے بلکہ قرضوں کی ادائیگی اور اِن قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے قرض لیتے ہیں۔

 پاکستان کے پاس قدرتی وسائل کی کمی نہیں۔ تیل و گیس‘ سونے‘ تانبے‘ کوئلے اور دیگر قیمتی دھاتوں اور پتھروں کے ذخائر موجود ہیں جن سے استفادہ ہونا چاہئے لیکن طویل المدتی ترقیاتی و متوازن اقتصادی پالیسی بنانے کی بجائے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اگر یہ اضافہ اِسی طرح جاری رہا تو ایک وقت میں پاکستان کا کوئی بھی طبقہ ٹیکس ادا کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ پاکستانی روپے کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ملکی و غیرملکی ذرائع سے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے لیکن یہ سب اہداف متوازن عمل کے بغیر ممکن نہیں اور اِس کوشش میں قرضوں کا حجم ناقابل برداشت سطح تک پہنچ چکا ہے۔ سخت اقتصادی فیصلوں اور حالات کا مقابلہ کرنے (بیلٹ ٹائٹننگ) ضروری ہو چکا ہے۔ ملک کا اقتصادی پالیسی فریم ورک‘ جو درآمدات پر منحصر ہے اِسے برآمدات کی طرف جھکانا ہوگا۔ پاکستان کو ایک مضبوط زرعی معیشت کی بھی ضرورت ہے جو ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہو‘ جس سے پاکستان کو نہ صرف خوراک میں خود کفیل بنایا جا سکے بلکہ اِس کے مستقبل میں غذائی تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے۔ پاکستان میں اِس بات کی صلاحیت موجود ہے کہ یہ خوراک کا عالمی سپلائر (برآمدکنندہ) بن سکتا ہے۔ یقینا زرعی پیداوار قومی ترقی کے اہداف برقرار رکھنے کا ذریعہ بن سکتی ہے اور اِسی کی بدولت صنعتی ترقی کا عمل بھی تیز ہو سکتا ہے۔بد قسمتی سے زراعت کے شعبے کو کئی دہائیوں سے وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اس کا حق ہے۔یہ وہ شعبہ ہے جسکے ذریعے نہ صرف ہم اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں بلکہ برآمدات کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کماکر ملکی معیشت کو  مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: سلطان علی الانہ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)