کئی دہائیوں میں پھیلی ہوئی مجموعی مالی بدانتظامی اور سیاسی افراتفری نے سری لنکا میں انتشار اور معاشی دیوالیہ پن کو جنم دیا لیکن سری لنکا کا پاکستان کی معاشی صورتحال سے موازنہ کرنا درست نہیں کیونکہ پاکستان کا موجودہ بحران معاشی سے زیادہ سیاسی ہے جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ اس وقت پاکستان جس حقیقی بحرانی دور سے گزر رہا ہے اس کی صحیح تشخیص کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر کو دیکھیں۔ پچھلے ایک سو دنوں میں روپے کی قدر میں تیس فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی دستیابی کا حال دیکھیں۔ کچھ دن پہلے‘ پاکستان کی آئل مارکیٹنگ کمپنیاں بشمول پاکستان سٹیٹ آئل کو 242 روپے فی ڈالر مل رہا تھا (اس وقت کے انٹربینک ریٹ سے بیس روپے سے بھی زیادہ) کی شرح سے ڈالر خریدنا پڑا۔ پاکستانی درآمد کنندگان اپنے طور پر ڈالر اوپن مارکیٹ سے خریدتے ہیں جہاں اِس کی قیمت کئی گنا زیادہ اور دستیابی انتہائی کم ہے۔ پاکستان کی دوا ساز صنعت بھی اِسی سے متاثر ہے۔
پانچ دسمبر دوہزاربائیس کو میچور ہونے والے بانڈ سے اکیاون اعشاریہ تین فیصد متاثر ہو رہے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے توپاکستان کے مشکل دن ابھی ختم نہیں ہوئے پاکستان کا اصل بحران کیا ہے؟ یہ بحران سیاست سے شروع ہو کر سیاست پر ختم ہو جاتا ہے۔ پاکستان کو ایک بے مثال ’کرنسی بحران‘ کا سامنا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کسی ملک میں کرنسی بحران اس وقت ظہورپذیر ہوتا ہے جب کوئی قوم ضروری درآمدات کی ادائیگی یا بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان کو تیل‘ خوراک (خوردنی اجناس) اور انتہائی ضروری علاج معالجے کیلئے درکار ادویات کی درآمدات میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روش اختیار نہیں کرتیں تو مستقبل قریب میں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔سری لنکا میں کئی دہائیوں سے پھیلی مجموعی مالی بدانتظامی اور سیاسی افراتفری نے کرنسی کے بحران کو جنم دیا۔ سری لنکن کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی رہی‘ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا۔
سری لنکا کے صدر رانیل وکرما سنگھے نے سری لنکا سے کہا کہ اگلے دو مہینے ہماری زندگی کے سب سے مشکل مہینے ہوں گے۔ مجھے سچ چھپانے اور عوام کے سامنے جھوٹ بولنے کی کوئی خواہش نہیں ہے اگرچہ یہ حقائق ناخوشگوار اور خوفناک ہیں لیکن یہی حقیقی صورتحال ہے۔ پاکستان کے پاس ٹیلنٹ اور وسائل موجود ہیں۔ ہمارے مسائل کا حل ہمارے پاس ہے لیکن اِس حل کی راہ میں سیاسی انتشار رکاوٹ ہے۔ ہم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پر الزام تو لگا سکتے ہیں لیکن پاکستان کو بچانے کے ذمہ داروں کو متوجہ نہیں کر سکتے جو پاکستان کے سیاسی رہنما ہیں اور اگر یہ سیاسی رہنما قومی معیشت کی بہتر کے لئے متحد ہو جائیں تو ’آئی ایم ایف‘ یا اِس جیسے ادارے پاکستان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ ہم ورلڈ بینک کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں لیکن ورلڈ بینک اسلام آباد سے گیارہ ہزار کلومیٹر دور ہے اور اگر پاکستان کی منجملہ سیاسی قیادت پاکستان کی معیشت میں بہتری کی فکر کرے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ‘ کا وقت ہے۔ ہمیں ’علالت‘ اور ’بیماری‘ کے درمیان فرق کرنا چاہئے۔ پاکستانی روپے کا گرنا واقعی ایک علالت (علت) و علامت ہے اصل ’بیماری‘ سیاسی بحران ہے۔ اس وقت‘ ہمارے پاس واقعی اس بات پر بحث کرنے کا وقت نہیں ہے کہ سیاسی افراتفری کیلئے کون کون ذمہ دار ہے۔ ابھی ہمیں صرف اس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے کہ سیاسی بے یقینی کے جاری دور کو کیسے ختم کیا جائے۔ فی الوقت پاکستان کو صرف پالیسی کے تسلسل کی ضمانت دینے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔پاکستان میں‘ معاشیات کو سیاست پر حاوی کرنا چاہئے۔ معاشی فیصلے سیاسی فیصلوں سے زیادہ ضروری اور اہم ہیں اور یہ جتنی جلدی ہوں گے‘ اتنا ہی بہتر رہے گا۔ جب تک معاشیات سیاست پر حاوی نہیں ہوتی‘ موجودہ معاشی بحرانی صورتحال سے چھٹکارا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)