The exploding population
آبادی کے عالمی دن (گیارہ جولائی) کے موقع پر ذرائع ابلاغ کی بہت ہی کم توجہ ملک میں بیروزگاری کی جانب مبذول دیکھی گئی اور صرف چند مضامین سامنے آئے جن میں آبادی کا ذکر کیا گیا لیکن اِس سے پیدا ہونے والے سے سب اہم معاشی مسئلے یعنی بیروزگاری کو زیربحث نہیں لایا گیا جس کی وجہ سے ملک میں سخت مایوسی اور تشویش پائی جاتی ہے۔ آباد ی میں اضافے کے نتیجے میں شہروں کی طرف بے دریغ نقل مکانی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ شہر بے سمت پھیل رہے ہیں اور اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ ریاست آبادی پر کنٹرول کرنے جیسی ضرورت کو نظر انداز کر رہی ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ آبادی کا بوجھ قومی زندگی کے جملہ پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے۔ پاکستان میں آبادی میں اضافے کا غیر متناسب حصہ انتہائی غریب ہے جن کے پاس تعلیم اور تربیت (ہنرمندی) کی کمی ہوتی ہے۔ اس طرح پاکستان میں خوشحالی ان لوگوں کے لئے ایک جزیرے کی مانند ہے جو تعلیم یافتہ اور معقول طور پر امیر پس منظر میں پیدا ہوتے ہیں۔ غربت کے اس سمندر کے درمیان جو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے کروڑوں لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر موجودہ شرح سے آبادی میں اضافہ ہوتا رہا تو اندازہ ہے کہ سال 2050ء تک پاکستان کی آبادی تیس کروڑ (تین سو ملین) سے تجاوز کر جائے گی۔ جب ہمارا صحت اور تعلیم کا نظام پہلے سے ہی خراب حالت میں ہے تو مستقبل میں اِس قدر بڑی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وسائل کہاں سے میسر آئیں گے؟ ہمارے شہری مسائل کی بڑی وجہ آبادی ہے۔ سرکاری ہسپتال اور دیگر سرکاری ادارے عوام کی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے کیونکہ سہولیات میں اضافے کے تناسب سے زیادہ آبادی بڑھ رہی ہے جبکہ شہری سہولیات میں بھی وقت اور آبادی کے ساتھ کمی آئی ہے۔ زیادہ آبادی‘ زیادہ بے روزگاری کا سبب ہے جس کے نتیجے میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بیرون ملک روزگار کی تلاش میں جانے والے پاکستانیوں کی مجبوریوں سے وہاں کے لوگ بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور لیبرکلاس میں جانے والوں کو ایسی مزدوریاں کرنی پڑتی ہیں جو اُن کی جسمانی یا ذہنی صحت کے لئے موزوں نہیں ہوتیں اور اُن کے انسانی حقوق بشمول عزت نفس بھی پائمال کی جاتی ہے لیکن اہل خانہ کی کفالت جیسی مجبوری کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں اور یہی وہ مرحلہئ فکر ہے جہاں حکومت کو بیرون ملک محنت مزدوری کرنے والوں کے مفادات کے تحفظ پر توجہ دینی چاہئے جو اپنے پیاروں اور ملک سے دور بے یارومددگار اور بنا رہنمائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ وقت سیکھنے اور سکھانے کا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں کس طرح اپنے وسائل میں اضافہ کرتی ہیں جس سے عوام کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے اور انہیں ہر قسم کی سہولیات میسر آتی ہیں۔ اِس سلسلے میں ”نیوزی لینڈ“ کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ نیوزی لینڈ میں آبادی کنٹرول کرنے کا فائدہ یہ بھی ہے کہ وہاں معمر افراد کو مکمل علاج معالجے اور نگہداشت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اگر آبادی اور وسائل میں توازن قائم نہیں رکھا گیا توآنے والے برسوں میں پاکستان کی شرح خواندگی اوسطاً کم اور غربت میں نسبتاً اضافے کا عمل جاری رہے گا اور اِس حوالے سے اقدامات کرناانتہائی ضروری (ناگزیر) ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: افتخار اے خان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)