’کوویڈ 19‘ نامی جرثومہ ڈھائی سال بعد پھر سے حاوی ہو رہا ہے اِس موقع پر یہ بات اہم نہیں ہے کہ اِس وائرس کو کیسے پکڑا گیا لیکن کہانی کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ ہم نے اتنے عرصے تک وائرس کو کیسے روکے رکھا؟ ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا اب بھی انفیکشن یا دوبارہ انفیکشن سے بچنے کی کوشش کرنے کا کوئی فائدہ ہے؟ اتنے عرصے تک کورونا سے بچنے کے قابل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ میرے خاندان نے سخت احتیاطی تدابیر پر عمل کیا کیونکہ میرے مرحوم والد گھر پر تھے۔ شروع سے ہی ہم جانتے تھے کہ بڑی عمر کے گروپ سب سے زیادہ کمزور ہیں۔ ہم وینٹی لیشن کی اہمیت سے بھی واقف تھے‘
اس لئے جب بھی کوئی آتا تو تمام کھڑکیاں کھلی رہتیں اور سب کو ماسک پہننے کو کہا جاتا اور زیادہ تر سماجی ملاقاتوں کا انتظام کھلی فضا میں کیا جاتا تھا۔ ہم نے بچوں کو گھر پر رکھا اور آن لائن تعلیم پر انحصار کیا‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان احتیاطوں کی شدت میں نرمی آتی گئی لیکن ہم نے پابندیوں پر عملدرآمد کیا۔ خریداری زیادہ تر دکانوں سے اوپن ڈور پالیسی کے ساتھ کی جاتی تھی۔ اگر مجھے خراب وینٹی لیشن کے ساتھ کسی دفتر میں جانا پڑتا تو میں کم سے کم وقت میں باہر نکلنے کی کوشش کرتا تھا۔ تمام عوامی معاملات میں ماسک پہنتا کیونکہ ہم یہ بھی جانتے تھے کہ کم قیمت سرجیکل ماسک استعمال کرنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے‘ بچوں نے سکول واپس جانا شروع کیا
لیکن انہیں مکمل طور پر ٹیکہ لگایا گیا اور کھلی کھڑکیوں اور دروازوں والی کلاسوں نے انہیں محفوظ رہنے میں مدد کی۔ میرے والد گزشتہ سال برس انتقال کر گئے لیکن وہ آخر وقت تک کورونا سے محفوظ و آزاد رہے۔ سال دوہزاربائیس میں‘ زیادہ تر ماہرین جن کو میں ٹویٹر پر فالو کیا کرتا تھا‘ اِس وائرس کا شکار ہوئے۔ میں جانتا تھا کہ ہم ایسی نسل کا حصہ ہیں جو زیادہ لمبے عرصے تک کورونا کے چنگل سے آزاد رہنے میں کامیاب رہی ہے لیکن احتیاط کرنیوالے کم ہونا شروع ہو گئے کیونکہ کورونا کی نئی قسمیں زیادہ متعدی ہیں۔ میرے دوست اِس بات سے خوش نہیں تھے جب ہم موسم گرما میں بھی‘ کھلے مقامات پر اکٹھا ہوتے‘ ایسے ہی ایک عشائیے کے بعد ہمیں اطلاع ملی کہ ایک دوست کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے تو جب یہ بات سامنے آئی تو احتیاط کرنے پر بہت سے لوگوں نے میرا شکریہ ادا کیا
لیکن پھر بعد میں، ایسا لگتا تھا کہ شہر میں صرف میں ہی ایسا شخص ہوں جو ماسک پہنے ہوئے ہوں یا کورونا احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا کرنے کی ترغیب دے رہا ہوں یہ وائرس ہمارے گھر میں ہمارے بچوں کے ذریعے آیا جنہوں نے گرمی کی چھٹیوں میں ’سمر اکیڈمی‘ میں تعلیم حاصل کی تھی‘ ایک بار جب وائرس ہمارے گھر میں داخل ہوا تو ہماری طرف سے اختیار کی جانیوالی الگ تھلگ رہنے کی پالیسی اور ہوا دار کمروں میں رہنے کی تمام کوششیں رائیگاں چلی گئیں۔ ہم انسانوں نے کورونا وبا سے ہار اِس لئے مانی ہے کیونکہ ہم نے احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کرنے کو ضروری نہیں سمجھا‘کورونا وبا ختم نہیں ہوئی لہٰذا بہتری اِسی میں ہے کہ کورونا سے محفوظ رہا جائے
اورآ بیل مجھے مارکسی بھی صورت دانشمندی نہیں ہے۔ پہلی مرتبہ انفیکشن یا دوبارہ کورونا انفیکشن ہو سکتا ہے دنیا کا کوئی بھی ٹیکہ یا دوائی اِس سے بچنے کی ضمانت نہیں ویکسی نیشن مکمل کروانا ہی اِس سے محفوظ رہنے کی ممکنہ ضمانت بن سکتے ہیں‘ (بشکریہ: ایکسپریس ٹریبون‘ تحریر: ڈاکٹر رعنا جواد اصغر‘ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)