پاکستان کی مغربی سرحد تاریخی طور پر ہمیشہ ہی سیحساس رہی ہے لیکن 1970ء کی دہائی کے بعد سے اِس سرحد کے راستے داخل ہونے والے تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ تیز ہوا ہے کیونکہ پاکستان نے افراتفری‘ اورتنازعات سے وطن چھوڑنے والے افغانوں کی باضابطہ میزبانی کی۔ سوویت قبضے کے عروج کے وقت، 1986-87ء میں یو این ایچ سی آر (اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی) کے مرتب کردہ اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ایک اندازے کے مطابق تیس لاکھ افغان باشندے پاکستان میں مقیم تھے۔ سال 2002ء تک افغانوں کی وطن واپسی کے لئے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں جب حکومت پاکستان نے UNHCR کے ساتھ مل کر افغانوں کی واپسی کی ترغیب دینے کے لئے کام شروع کیا جو اس وقت استحکام کے لئے ضروری سمجھا جاتا تھا۔
پاکستان کی جانب سے دوہزارپانچ میں پناہ گزین کیمپوں کو بند کرنے اور راشن وغیرہ کی تقسیم کے بند ہونے کے بعد وطن واپسی کی کوششوں میں تیزی آئی۔ تاہم 2007-08ء کے بعد الٹا بہاؤ شروع ہو گیا۔ سال 2021ء میں نادرا کے مطابق پاکستان میں اٹھائیس لاکھ افغان باشندے مقیم تھے۔ جن میں سے سولہ لاکھ کے پاس رجسٹریشن کا ثبوت (پی او آر) کارڈز موجود ہیں جو ان کی شناخت کرتے ہیں کہ وہ یو این ایچ سی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ باقی کے پاس ACCs یا افغان سٹیزن کارڈز ہیں جو کہ دوہزارسترہ میں شروع کی گئی دستاویزات کی ایک شکل ہے تاکہ ان افغان تارکین وطن کا شمار کیا جا سکے جو بنیادی طور پر غیر دستاویزی تھے۔ پاکستان میں افغانوں کی تعداد کو دستاویزی کرنے کی نسبتاً حالیہ کوششوں کے باوجود (پی او آر کارڈ کا اجرأ 2006ء تک شروع نہیں ہوا تھا) اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تعداد پوری کہانی نہیں بتاتی۔ افغان مہاجرین کی مردم شماری سال دوہزارپانچ تک نہیں ہوئی تھی۔
1979ء سے 2005ء تک قبائلی عمائدین اور گھر کے سربراہوں کے ساتھ بات چیت کی بنیاد پر اِن کی تعداد کا تخمینہ لگایا گیا‘ جن سے یہ بتانے کو کہا گیا کہ ان کے ساتھ خاندان کے کتنے افراد یا کفیل ہیں۔ اِس کوشش سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار سے راشن کی ضروریات کا تعین کرنا تھا اور اُس وقت یقینی طور پر مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا۔ بعد کے سالوں میں‘ جیسے جیسے خاندان آباد ہوئے اور بڑھتے گئے اور زیادہ شادیاں اور پیدائشیں ہوئیں تو افغان مہاجرین کی آبادی سے متعلق یہ ابتدائی (ممکنہ) مبالغہ آرائی یقینی طور پر ختم ہو گئی تھی۔ سال دوہزارپانچ کی مردم شماری میں بہت سے افغانوں شمار نہ ہو سکے جو اُس وقت کے حکام سے بات کرنے سے ڈرتے تھے اور جھوٹ بولنے کو ترجیح دیتے تھے۔ دریں اثنا افغانوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی جاری رہا جو برسوں سے جاری تھا۔ اُس وقت سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ باڑ لگانے کا منصوبہ سال دوہزارسولہ تک شروع نہیں ہوا تھا۔
بہت سے افغانوں نے پاکستانی شہریت کے کاغذات حاصل کئے۔ جن کے ہاں ایسے بچے پیدا ہوئے جو پاکستان کے علاوہ دوسرے کسی اور ملک کو نہیں جانتے تھے۔ پناہ گزینوں کی رسمی طور پر تعریف (بین الاقوامی قانون کے مطابق) ایسے افراد کے طور پر کی جاتی ہے جو ظلم و ستم یا موت کے خوف سے اپنے وطن واپس نہیں جا سکتے تاہم افغان 1970ء کی دہائی کے اواخر سے لے کر 2016-17ء تک کچھ پابندیوں کے ساتھ سرحد پار سے آگے پیچھے جا رہے تھے۔ بہت سے وہ لوگ جو مہاجرین کے طور پر پاکستان آئے تھے اور برسوں سے یہاں مقیم ہیں‘ رشتہ داروں سے ملنے‘ شادی کرنے‘ زمینوں اور جائیدادوں کی جانچ پڑتال وغیرہ کے لئے بھی اکثر سفر کرتے ہیں۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے اب بھی کچھ ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ ان کی موجودگی سے معیشت پر بوجھ پڑنے کی بجائے معیشت کو سہارا ملے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: صفیہ آفتاب۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)