پاکستان کی مجموعی خام آمدی (گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ جی ڈی پی) کا حجم 263 ارب ڈالر ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قومی اخراجات آمدنی سے زیادہ ہیں۔ پاکستان اکنامک سروے کے مطابق مالیاتی خسارہ چار کھرب روپے کے لگ بھگ ہے۔ اس لئے حکومت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے غیر ملکی قرضے لینے پر مجبور ہے۔ پاکستان میں قرض اور قرض پر سود کی ادائیگی قومی اخراجات کا 45.6 فیصد ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر رواں برس کے بجٹ (دوہزاربائیس تیئس) میں سرکاری شعبے کی ترقی کے لئے 80 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی عمل کے لئے 90 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے۔ اِس ترقیاتی بجٹ سے سڑکوں کی تعمیر سے لے کر کالجوں اور ہسپتالوں کی تعمیر تک کے منصوبے شامل ہوتے ہیں۔ سخت مالی حالات میں ترقیاتی منصوبوں پر نظرثانی اور جانچ پڑتال بھی ہونی چاہئے اور ایسے منصوبوں کا شمار بھی ہونا چاہئے جو منصوبے مکمل ہو چکے ہیں یا جو مکمل ہونے کے قریب ہیں اور ایسے زیرتعمیر منصوبوں کی تکمیل کے لئے مزید کس قدر مالی وسائل کی ضرورت ہے؟ ترقیاتی ضروریات کا صحیح اندازہ لگائے بغیر رقم مختص کرنا ایک معمول ہے اور اِس سلسلے کو ختم ہونا چاہئے۔ حکومت نے حیران کن طور پر 699 ارب روپے مختلف شعبوں کو رعایت (سبسڈیز) دینے کے لئے بھی مختص کئے جس کا بوجھ خود بخود ریاست برداشت کرے گی اور پہلے ہی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات ہیں تو ایسی صورت میں شاہ خرچیاں اور سبسڈی دینا دانشمندانہ عمل نہیں ہے۔ درآمدات کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات تشویشناک حد تک کم ہیں جو کہ 26.8 ارب ڈالر ہیں۔ درآمدی بل میں پچھلے سال کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ درآمدات کا ایک بڑا حصہ پیٹرولیم مصنوعات ہیں‘ جو نہ صرف نقل و حرکت بلکہ بجلی کی پیداوار کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تیل کے ساتھ پاکستان بجلی کی پیداوار کے لئے کوئلے پر بھی انحصار کرتا ہے اور کوئلہ درآمد بھی کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے‘ یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس دو ماہ سے زیادہ کے درآمدی بل ادا کرنے کے لئے رقم نہیں ہے۔ معاشی صورتحال ابتر ہے۔ تاہم معاشی افراتفری کی اِس صورت حال سے نکلنے کا ہمیشہ ایک راستہ ہوتا ہے۔ اکثر بڑے مسائل کے آسان حل ہوتے ہیں۔ پاکستان کو صرف دوست ممالک یا آئی ایم ایف پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے مسائل کے مقامی حل پر توجہ دینی چاہئے۔ سب سے پہلے‘ گزشتہ مالی سال میں خرچ کئے گئے فنڈز کا کڑا احتساب ہونا چاہئے تاکہ آنے والے مالی سال میں غیر ضروری اخراجات سے بچا جا سکے۔ دوسرا جہاں تک بجلی کی پیداوار کا تعلق ہے تو پاکستان میں متبادل توانائی کے وسائل کو مکمل طور پر تبدیل کر کے درآمدی بل کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ عالمی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں شمسی توانائی کے وسائل کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اگر پاکستان اپنے رقبے کا صرف 0.071 فیصد سولر انرجی حاصل کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے تو اس سے پیدا ہونے والی بجلی قومی طلب کو پورا کر سکتی ہے لیکن اگر سرمایہ کاری کی جائے۔ توانائی کے متبادل وسائل کو بروئے کار لا کر بجلی کے معاملے میں خود انحصاری کا ہدف بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ”گلوبل ونڈ اٹلس“ نے کہا کہ بلوچستان میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے لئے موزوں علاقے موجود ہیں‘ جن کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بجلی کی پیداوار کے لئے پٹرولیم مصنوعات پر انحصار کرنے کی بجائے متبادل توانائی کے وسائل کے استعمال پر غور کریں۔ اس سے قومی درآمدی بل کم کرنے میں مدد ملے گی۔ پہلے مرحلے میں بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس جو پہلے سے موجود ہیں ان کو توانائی کے متبادل وسائل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ پھر توانائی پر انحصار کرنے والے مزید متبادل پلانٹس لگائے جاسکتے ہیں۔ مزید برآں‘ درآمدی بل کم کرنے کے لئے پاکستان صرف ایک یا دو سال کے لئے غیر ضروری درآمدات کو روک سکتا ہے۔ اس کے بجائے‘ پاکستان کو اندرونی طور پر مینوفیکچرنگ پر توجہ دینی چاہئے۔ پاکستان میں توانائی کی پیداوار کے لئے بڑی صلاحیت ہے‘ صرف سرمایہ کاری اور بالخصوص بیرونی سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان خود مینوفیکچرنگ کی صلاحیت پیدا کر سکے۔ پاکستان کی بڑے پیمانے پر صنعت محدود ہے جس میں ٹیکسٹائل‘ فوڈ بیوریجز‘ تمباکو اور آٹوموبائلز شامل ہیں۔ گاڑیاں بھی پاکستان میں تیار ہونے کی بجائے اسمبل کی جا رہی ہیں۔ کاروباری ڈھانچے کو آسان بنا کر سرمایہ کاروں کو صنعت میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کم ہے۔ ٹیکس کا قومی ’جی ڈی پی‘ میں حصہ قریب دس فیصد ہے لیکن پاکستانی ٹیکس دینے سے زیادہ خیرات دینے کی طرف مائل ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تیار کردہ ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹوں کے مطابق صرف 22 لاکھ لوگ (بشمول کمپنیاں) ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ایف بی آر ٹیکس بیس بڑھانے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے بجائے‘ ریاست نے سامان پر سترہ فیصد سیلز ٹیکس لگایا ہے۔ ایک غریب شخص جس کی یومیہ آمدن دوسو سے تین سو روپے ہے اُور ایسے بھی ہیں جن کی یومیہ آمدنی دو سو روپے سے بھی ہے اُنہیں بھی یکساں ٹیکس ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کو توجہ دینی چاہئے کہ پاکستان میں زراعت پر کوئی وفاقی ٹیکس نہیں ہے۔ 1997ء میں‘ ورلڈ بینک کے دباؤ کے بعد زراعت پر ایک معمولی صوبائی ٹیکس لگایا گیا لیکن یہ ٹیکس صرف چند ہی بڑے زمیندار ادا کرتے ہیں۔ اِسی طرح پاکستان میں ٹیکس چوری کو بھی جرم اور بُرائی نہیں سمجھا جاتا اور ٹیکس چوری کرنے والوں پر یہ چوری اگر ثابت ہو بھی جائے تو قوانین عبرت ناک سزائیں نہیں دیتے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ قوانین تو سرمایہ داروں کو تحفظ بھی دیتے ہیں۔ شبر زیدی (سابق چیئرمین ایف بی آر) کے بقول 1990ء میں بنائے گئے ایک قانون کے تحت‘ کسی بھی حد تک رقم کی منتقلی پر پاکستان سرمایہ داروں سے سوال نہیں کر سکتا۔ ”کاروباری حضرات اور سیاستدان اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرتے ہیں اور کوئی سوال نہیں کرتا۔“ پاکستان کی معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے جس کے لئے ابتدائی طور پر تین طرح کے اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان میں توانائی کی کمی ختم کرنی چاہئے۔ دوسرا درآمدی بل کم کیا جانا چاہئے اور عوام درآمدات کی بجائے مقامی اشیا استعمال کریں اور تیسرا ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان کے ساتھ ہمیشہ (شروع دن سے) مسئلہ رہا ہے کہ یہاں کچھ لوگ اور طبقات ریاست سے زیادہ امیر ہیں۔ ٹیکس چوروں کے خلاف جرات مندانہ اور سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ امیروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے لئے قانون سازی کی تجویز ہے۔ پاکستان کو متبادل توانائی کے بے پناہ وسائل سے نوازا گیا ہے۔ ان کو بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی عوام اربوں روپے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ وہ ٹیکس بھی ادا کر سکتے ہیں۔ جو لوگ جائیداد کی خریدوفروخت (رئیل اسٹیٹ) پر لاکھوں خرچ کرتے ہیں وہ صنعتوں میں بھی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ ”میڈ اِن پاکستان“ کو ایک نعرے کے طور پر فروغ دینا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ملک کو مشکلات سے نکالنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں اور ایسا چاہتے بھی ہیں؟ (مضمون نگار تحقیقی تجزیہ کار ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مریم مستور۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام