کربلا: فقیدالمثل قربانی

رواں ہفتے محرم الحرام کے ساتھ ’اسلامی کیلنڈر‘ کا پہلا مہینہ شروع ہو چکا ہے جو قربانیوں کی ایک عظیم داستان اور ایک طاقتور علامت کے طور پر تذکرہ کی جاتی ہے۔ جب موجودہ عراق کے شہر ”کربلا“ میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور اِن کے بھائی حضرت عباس المعروف علمدار رضی اللہ عنہ کی آخری آرام گاہوں (مزارات) اور اِس کے ارد گرد کربلا شہر میں نصب روشنیوں کو سرخ کر دیا گیا۔ جنوبی عراق کا یہ خطہ ایک منفرد اور بے مثال تاریخ کے ساتھ دنیا بھر میں مشہور ہے جہاں بالخصوص یکم سے دس محرم الحرام اور بعدازاں چہلم تک کروڑوں زائرین آتے ہیں اور یہ سلسلہ چودہ سو برس قبل پیش آنے والے واقعات کی یادگار ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ کربلا کا معرکہ جس میں امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اور ان کے 72پیروکاروں کو 30 سے 70ہزار سپاہیوں پر مشتمل دستوں کا سامنا کرنا پڑا‘ بے لگام ظلم کے خلاف مزاحمت کی طاقتور علامت ہے تاہم کربلا میں پیش آنے والی خونریزی (مقتل کے واقعات) کا احوال امام حسین رضی اللہ عنہ کی چھوٹی بہن بی بی زینب رضی اللہ عنہ جنہیں ’شریکۃ الحسین‘ بھی کہا جاتا ہے کے تذکرے کے بغیر ادھورا رہے گا۔ بی بی زینب رضی اللہ عنہ اپنے بھائی کے ساتھ کربلا گئی‘ اپنے دو نوعمر بیٹوں حضرت عون بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو 72  شہدأ میں سے قربان ہونے کے لئے بھیجا اور پیچھے رہ جانے والوں کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی۔

 مختصراً اگر امام حسین کو سید الشہدأ یا شہدأ کے آقا کے نام سے یاد کیا جائے تو بی بی زینبؓ نے کربلا کے مشن کو زندہ رکھا اور اِسے تاریخ میں گم ہونے نہیں دیا۔ دس محرم الحرام کو آخری معرکہ ایک یادگار واقعہ ہے‘ جو اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والے ابدی پیغام کا دفاع تھا۔ امام حسینؓ کے مقصد کی طاقت اِس بات کی گواہی ہے کہ اُنہوں نے جنگ اقتدار کے لئے نہیں کی تھی۔ امام حسینؓ کی طرف سے وقت کے حکمران کی بیعت یا ’بیت‘ قبول کرنے سے انکار نے آنے والی نسلوں کے لئے ایک عظیم روایت کی بنیاد ڈالی ہے جیسا کہ انسانیت نے بارہا طاقتور افراد کے غضب کا مقابلہ کیا ہے۔ کشمیر سے فلسطین اور اس سے آگے اسلامی دنیا میں آزادی کی متعدد تحریکوں کے لئے آج امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد جوش‘ جذبہ‘ ولولہ اور طاقت فراہم کرتی ہے اور انسانی تاریخ میں کربلا جیسا متاثر کن واقعہ کوئی دوسرا نہیں۔ کربلا کے زائرین کے لئے ایک ضروری پڑاؤ ’تِلّہ زینبیہ (حضرت بی بی زینبؓ کی خیمہ گاہ)‘ آج بھی الگ سے موجود ہے اِسے ’ٹیلہ زینبیہ‘ بھی کہا جاتا ہے جو ماضی میں قدرے بلند ہوا کرتا تھا۔ اِس مقام کو اچھی طرح سے محفوظ کر لیا گیا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے بی بی زینبؓ نے اپنے بھائی کو اسلام کی جنگ لڑتے اور شہید ہوتے دیکھا۔

 یہ المناک واقعہ امام حسینؓ کو مارنے والی پہلی تلوار سے لے کر اُس لمحے تک پھیلا ہوا تھا جب امام حسینؓ کا سر مبارک قلم کر کے نوک نیزہ پر بلند کیا گیا اور فاتحانہ انداز میں نیزے کو لہرایا گیا۔کربلا شروع سے آخر تک ظلم کی داستان ہے جس میں حضرت امام حسینؓ کو شہید کرنے کے بعد اُن کے لباس اور خیموں تک کو لوٹ لیا گیا۔ خیمے لوٹنے کے بعد اُن کو آگ لگا دی گئی اور مستورات کے سروں سے چادریں چھین لی گئیں۔ بچوں کو طمانچے مارے گئے۔ خواتین کو بے پردے کر کے بازاروں میں پھرایا گیا۔ کربلا سے صرف ایک بالغ مرد زندہ رہا جو حضرت امام حسینؓ کے صاحبزادے علی بن حسین المعروف امام زین العابدین رضی اللہ عنہ تھے چونکہ یہ بیمار تھے اور جنگ کے قابل نہ تھے اِس لئے خیمے ہی میں رہے اور اِس بیمار کو زنجیروں میں جھکڑ کر بازاروں اور درباروں میں لیجایا گیا۔ کربلا سے شروع ہونے والا اسیروں کا قافلہ پہلے کوفہ پہنچا۔ جہاں کوفے کے گورنر نے اپنی فتح کا جشن منایا اور پھر اِس لٹے ہوئے قافلے کے اسیروں کو دمشق بھیج دیا گیا۔ دمشق میں حاکم وقت پہلے ہی سے منتظر تھا لیکن اُس کا سامنا اِس مرتبہ بی بی زینبؓ سے ہوا جو غیر معمولی طاقتور شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں اور اُن کی صورت و گفتار میں لوگوں کو اِن کے والد گرامی‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی یاد آ گئی۔ 

بی بی زینب سے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے دمشق تک خطبات دیئے جن میں دمشق کے دربار کا خطبہ زیادہ مقبول ہے اور اِس میں نہایت ہی جرأت سے ایک ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے کلمہئ حق پیش کیا گیا۔ بی بی زینبؓ کا پیغام اتنا طاقتور و پراثر تھا کہ مؤرخین نے اِسے بے مثال قرار دیا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ کربلا کے پیغام اور مقصد کو زندہ و باقی رکھنے کے لئے بی بی زینبؓ کی ’بے مثال بہادری‘ بھی یکساں اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بی بی زینبؓ نے حالات کے تقاضے کے مطابق اپنے بھائی (امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ) کے قیام و مقصد کو بچایا اور تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا۔ اُن کی ہمت و حکمت کی وجہ سے کربلا آج تک محفوظ اور دنیا بھر میں مزاحمت کی علامت ہے۔ کربلا کی میراث اور اثاثہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے پیروکار رضوان اللہ اجمعین کی قربانیوں کے مرہون منت ہے تو بی بی زینب رضی اللہ عنہ نے اس میراث کو بقا دی اور اِسے ہر آنے والے دور کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فرحان بخاری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)