زبان شناسی

ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محققین نے سالہا سال کی تحقیق اور مطالعے سے پایا ہے کہ صحت مند اور لمبی عمر کے لئے دو عوامل ضروری ہیں۔ پہلا ضروری عمل خاندان کے افراد کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور دوسرا ضروری عمل سماجی تعلق ہے۔ ایسے افراد کی زندگیاں نسبتاً زیادہ بہتر پائی گئی ہیں جو اپنے خاندان اور سماج سے بہتر تعلق رکھتے ہیں۔ نظریاتی طور پر یہ سب بہت اچھا ہے لیکن یہاں مزید جس چیز کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے وہ ایسے ذرائع ہیں جن کے ذریعے تعلقات کو بنایا اور پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ ہر انسان پیدائشی طور پر زبان سیکھنے اور دوسروں کو زبان کی تعلیم دینے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ انسان علم کے تحفے کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں تاہم دوسروں کو پس پشت ڈالتے ہوئے کچھ زبانوں کو سیکھنے یا حاصل کرنے کے عمل کی ایک سیاسی جہت ہے جس سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔ زبانوں کے غیر فطری انتخاب کے ساتھ جو معاشرے بنائے جاتے ہیں اُن میں علم اور حکمت پروان نہیں چڑھتے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں ہزاروں کمپیوٹر مل کر بھی ایک سماج نہیں بنا سکتے۔ پاکستان میں ایک درجن سے زائد زبانیں معدوم ہونے کے قریب ہیں۔ یہ مرتی ہوئی زبانیں‘ پنجابی‘ پشتو‘ سندھی‘ بلوچی‘ وغیرہ جیسی دیگر ممتاز زبانوں کی طرح اپنے بولنے والوں کے لئے جو حیثیت رکھتی ہیں اس کے لئے بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہیں چونکہ کوئی جو زبان بولتا ہے وہ اس کے بولنے والوں کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ اس لئے کسی زبان کی موت خواہ اس کے بولنے والوں کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو‘ لامحالہ ایک ثقافت اور اس کے نتیجے میں افراد کی موت ہے چونکہ ہمارا عالمی نظریہ براہ راست اس زبان سے متاثر ہوتا ہے جو ہم استعمال کرتے ہیں اس کے ساتھ اس عینک سے ہم نہ صرف اپنی ذاتی شناخت بناتے ہیں بلکہ اپنا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ قومی صحت کی بہتری کے لئے زبانوں کی بقا ضروری ہے۔

انگریزی زبان دنیا بھر میں بولی جاتی ہے اور اسے ٹیکنالوجی کی زبان ہونے کی خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان میں انگریزی دیگر زبانوں پر حاوی ہے کیونکہ اِسے بطور فیشن بھی بولا جاتا ہے چونکہ زبان و ثقافت اور ادب کے ذریعے شخصیت سازی ہوتی ہے اِس لئے کوئی غیر ملکی زبان بولنا مفید نہیں ہوتا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہم جو غیرملکی زبان شعوری طور پر استعمال کرتے ہیں وہ ہمیں دوبارہ لاشعوری سطح پر استعمال کر رہی ہوتی ہے۔ زبان اس بات کا اظہار ہوتی ہے کہ اس کے بولنے والے اِس پر کتنا یقین رکھتے ہیں۔ زبان سماج میں اجتماعیت بھی پیدا کرتی ہے۔ انگریزی زبان مابعد جدید کارپوریٹ کلچر کے پس منظر میں ایک ایسی تشریح ہے جو فطری طور پر اخلاق کے بغیر سفر ہے۔ جدید عہد کے فلسفی جین باؤڈرلارڈ کا استدلال ہے کہ زبان مابعد جدید ثقافت ہمیں اپنی خواہشات کا ادراک کرنے اور وجود کے حتمی مقصد کے طور پر ترغیب دیتی ہے۔ ہمارے ماحول میں مختلف زبانوں کی طرف سے پیش کی جانے والے مختلف ثقافت‘ عقائد اور نظریات کا تجربہ کیا جاتا ہے۔ یہ دیکھنا کہ ہمارے نوجوان کس میڈیم کا انتخاب کرتے ہیں ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے جسے  زیادہ تر دوسروں کی طرح ہم پورا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ قوموں کو‘ خاص طور پر ترقی کے مرحلے میں اپنے تشخص اور ثقافت کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ترکی کے لوگوں کو ہی لے لیجئے‘ جنہوں نے اپنی زبان کی اہمیت کو برقرار رکھا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے پیشروؤں کی دیانت‘ طاقت اور سخاوت کی میراث کو اپنے قومی کردار کا حصہ بنا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ترک وزیر اعظم رجب طیب ارژدگان کا ملک کا نام ترکیہ رکھنے کا فیصلہ ان کی قوم پرستی کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔ قوم پرستی کا جذبہ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ لوگوں اپنی زبان و ثقافت سے وفادار رہیں اور اپنی زمین اور اس سے جڑی ہر چیز کے ساتھ گہرا تعلق قائم کریں اور یہ صرف ایک ہی ذریعہ سے ممکن ہے یعنی زبان کے ذریعے کیونکہ کوئی بھی زبان کسی ملک کی مٹی میں گہرائی تک پیوست ہوتی ہے۔ پاکستان میں کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جہاں اساتذہ اور والدین دونوں کو قومی اور علاقائی زبانوں کی اہمیت سے آگاہ ہوں۔ حکومتی مشینری کو دو اہم شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے مقامی اور علاقائی زبانوں کے استعمال کے حوالے سے ایک واضح پالیسی وضع کرنا اور ان کے ساتھ وقار کے کچھ عناصر کو منسلک کرنے کے ذرائع وضع کئے جائیں جس سے چھوٹی زبانیں بولنے والوں کی عزت نفس میں اضافہ ہو۔ چونکہ ہم اپنی زبانوں کو جو اہمیت دیتے ہیں وہ کم ہے‘ زیادہ تر لوگ غیر ملکی زبان کے استعمال کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ مقامی زبانیں ٹیکنالوجی اور عصری اصطلاحات کے دائرے میں کم ہیں۔ پاکستان کو مختلف بین الاقوامی گروپوں کے ساتھ مل کر کمپیوٹر پر استعمال کے لئے تمام علاقائی زبانوں کے تحریری رسم الخط متعارف کروانے کے لئے زبان اور کمپیوٹیشنل ماہرین کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر لبنیٰ عمر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)