عوام کے دکھ



ملک بھر میں سیلاب نے گھروں اور زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ مون سون نے حب کے قریب بلوچستان کے لسبیلہ جیسے اضلاع کو متاثر کیا‘ جہاں اتنی شدید بارش پہلے کبھی نہیں ہوئی چولستان اور دیگر مقامات کا بھی یہی حال ہے کراچی بھی پہلے ہی تباہی کا شکار ہے اور لگتا ہے کہ مزید بارشیں ہونے والی ہیں ٹیلی ویژن پر ہم نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے دیکھا ہے کہ وہ چولستان کے راجن پور سمیت جنوبی پنجاب کے علاقوں میں چھوٹے بچوں کیلئے بغیر خوراک‘ دوا یا دودھ کے پھنسے ہوئے ہیں‘ حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں پہنچی‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس ہنگامی صورتحال میں وہ خصوصی ادارے کیا کر رہے ہیں جنہیں تخلیق کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ ہنگامی حالات کی پہلے سے تیاری رکھیں اور ہنگامی حالات کی صورت میں متاثرین کی مدد کریں درحقیقت مون سون بارشوں اور اِس کے نتیجے میں سیلاب کی صورتحال سے تباہی صرف خبروں کی حد تک محدود ہے جبکہ قومی منظرنامے پر سیاست حاوی ہے اور ملک کی سبھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں موجودہ سیاسی عدم استحکام کی صورتحال میں مستقبل کی حکومت پر نظریں جمائے ہوئے ہیں‘ یہ ایسی صورتحال ہے جس کا ہر روز مشاہدہ کیا جاتا ہے سیاسی جماعتوں نے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کیلئے بہت ہی کم عملی کوششیں کی ہیں جبکہ سیلاب سے متاثرین کیلئے امداد اکٹھی کر کے اُن تک پہنچائی جا سکتی ہے مگر ایسا دیکھنے میں نہیں آ رہا چند فلاحی تنظیمیں سیلاب متاثرین کی مدد کر رہی ہیں لیکن چونکہ تباہی زیادہ بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے اِس لئے مدد کی ضرورت بھی زیادہ ہے‘ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی ترجیح سیلاب متاثرین ہونے چاہئیں‘ حقیقت حال یہ ہے کہ اب تو سیلاب ہر سال کا معمول بن چکا ہے اس کے باوجود ہم اپنے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے اور نہ ہی سیلاب متاثرین کے بارے میں زیادہ ہمدردی سے سوچتے ہیں عوام کے دکھ درد کیا ہماری ترجیح ہے اِس سوال کا جواب صرف سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کو ہی نہیں بلکہ ہر خاص و عام کو سوچنا چاہئے‘ دوسری اہم بات اِس کا یقین کرنا مشکل ہے کہ ہنگامی صورتحال میں امداد کے حکومتی ادارے موجودہ صورتحال میں عوام کی مدد نہیں کر رہے یا اُن کو زیرآب علاقوں سے نکالنے کی کوششیں نہیں کی جارہیں‘جو متاثرین یہ کہہ رہے کہ وہ بھوک سے مر رہے ہیں درحقیقت وہ استعاراتی طور پر نہیں بلکہ حقیقت میں اِس بات کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک طرف سیلاب کا پانی اُنہیں ڈبو رہا ہے تو دوسری طرف بھوک اُنہیں مار رہی ہے۔ اُن کے پاس اشیائے خوردونوش نہیں ہے اور سیلاب متاثرین کی مدد کسی بھی سیاسی مسئلے کے حل سے زیادہ بڑی ترجیح ہونی چاہئے‘ سیلاب اور سیلاب متاثرین قومی اسمبلی میں بھی بحث کا بنیادی نکتہ ہونا چاہئے یہ بھی سچ ہے کہ یہ صرف سیلاب زدہ لوگ ہی نہیں جو بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ دیگر ایسے طبقات بھی ہیں جو بنا سیلاب متاثر ہیں اور اُنہیں مہنگائی و بیروزگاری کے سیلاب نے گھیر رکھا ہے بلکہ کچھ لوگوں کے سر سے تو پانی گزر چکا ہے یہ بات درست ہے کہ خوراک کی مہنگائی کسی حد تک عالمی رجحان ہے جو کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی تباہی کا نتیجہ ہے لیکن اس کے باوجود‘ جب ہم یہ دیکھتے ہوئے کہ پاکستان کی آبادی کا ایک تہائی حصہ غربت کی لکیر پر زندگی بسر کر رہا ہے اور انہیں معاشی خوفناک انجام سے بچانے کیلئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے ایسے کم آمدنی والے طبقات کو مشکل حالات میں جینے اور بھوک کی وجہ سے مرنے کیلئے اپنے حال پر نہیں چھوڑا جا سکتا موجودہ لمحے میں‘ اگرچہ اخبارات اور ذرائع ابلاغ سیلاب متاثرین کے بارے میں حقائق کو زیادہ تفصیل سے رپورٹ نہیں کر رہے‘سیاسی فیصلہ سازوں کو تنازعات و اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے سیلاب زدگان کی مدد کرنی چاہئے‘ اِس مرتبہ بھی ہر آفت کی طرح سیلاب سے بچے اور خواتین نسبتاً زیادہ متاثر ہیں اس کے ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کچھ کرنا ہوگا کہ لوگ سیلاب کے بغیر بھی اپنے اہل خانہ کو دو وقت کا کھانا کھلانے کیلئے ضروری اشیا خرید سکیں جبکہ اس وقت وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کاملہ حیات۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)