غذائی عدم تحفظ: عالمی عدم مساوات

مہنگائی ایک عالمی عمل ہے۔ اشیائے خوردونوش کی لاگت بڑھنے سے دنیا فکرمند ہے اور آج کی صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف کورونا وبا‘ موسمیاتی تبدیلیاں اور ممالک کے درمیان تنازعات جنگ کا باعث بن رہے ہیں تو دوسری طرف بنی نوع انسان غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہے۔ خوراک اور زرعی پیداوار کم ہے۔ توانائی کا نظام تہس نہس ہے اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ناگفتہ بہ غربت‘ بھوک اور غذائی قلت میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ المناک انسانی نقصانات کے علاوہ جنگ، بحیرہ اسود کے علاقے سے بڑی زرعی اجناس کی بوائی‘ کٹائی‘ نقل و حمل اور برآمدات میں بڑے پیمانے پر رکاوٹوں کے ذریعے انسانی مصائب کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا رہی ہے۔ جنگ نے ایندھن اور کھاد کی قیمتوں اور ان تک رسائی کو بھی متاثر کیا ہے۔ اور اس تناظر میں‘ ہم اناج کی تجارت کے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں جو لاکھوں لوگوں کے لئے زندگی (لائف لائن) کا مؤجب ہے جبکہ تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کا احترام کریں۔ جنگ سے پہلے ہی‘ عالمی سطح پر بھوک اور غذائیت کی کمی بڑھ رہی تھی۔

 سال دوہزار اکیس میں ناقابل قبول 823ملین افراد بھوک کا سامنا کر رہے تھے۔ سٹیٹ آف فوڈ سیکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ کے حالیہ ایڈیشن کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے پانچ ذیلی اداروں نے کہا ہے کہ روس یوکرائن جنگ نے دوہزاربائیس میں پوری دنیا میں مزید پانچ کروڑ (پچاس ملین) افراد کو شدید بھوک کی طرف دھکیل دیا ہے۔ خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے ساتھ، دوہزارتیئس میں عالمی سطح پر مزید ایک کروڑ نوے لاکھ افراد کو دائمی غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ قاہرہ سے کراکس‘ ڈھاکہ سے ڈونیٹسک تک پھیلی ایک ایسی دنیا کی حقیقت ہے جو بھوک سے بلبلا رہی ہے۔ جہاں ہر کوئی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کی صورت مہنگائی کا شکار ہے اور غریب سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں‘ جہاں ایک عام خاندان کے بجٹ کا نصف حصہ خوراک پر خرچ ہوتا ہے۔

 وہ ایسے میں کوئی اپنے خاندانوں کی پرورش کے لئے درکار خوراک کا متحمل ہونا زیادہ سے زیادہ مشکل محسوس کرتا ہے اور خوراک کی مقدار کم کرنے‘ اپنے پیداواری اثاثے بیچنے یا اپنے بچوں کو سکول سے نکالنے پر مجبور ہوا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم بھوک اور غربت کم کرنے میں برسوں کی پیشرفت دیکھتے ہیں، جو دوہزارتیس تک پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کو حاصل کرنے کی کوششوں کو ناکام کر رہے ہیں اور دنیا میں عدم مساوات کو بڑھا رہے ہیں۔ اِس صورتحال میں ’ورلڈ بینک‘ نے خبردار کیا ہے کہ یوکرائن میں جنگ سے عالمی سطح پر قریب ساڑھے نو کروڑ افراد کو انتہائی غربت میں ڈوبنے کا خدشہ ہے، جس سے دوہزاربائیس غربت کے خاتمے کے لئے اب تک کا دوسرا بدترین سال قرار دیا جا رہا ہے۔برآمدات اور گندم و دیگر اجناس پر تجارتی پابندیاں موجودہ بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔ یہ حکمت عملی نقصان دہ ہے اور اِسے تبدیل کیا جانا چاہئے۔

 ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ایک سو سے زائد ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے رکن ممالک کے نمائندوں نے حال ہی میں خوراک اور زرعی مصنوعات کی تجارت کو آسان بنانے کے لئے کوششیں تیز کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور برآمدات کی پابندیوں سے اجتناب کی اہمیت کا اعادہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ گروپ آف سیون جس میں خوراک کے بڑے برآمد کنندگان ممالک جیسا کینیڈا‘ یورپی یونین اور ریاستہائے متحدہ شامل ہیں‘ پہلے ہی برآمدی پابندیوں اور دیگر تجارتی پابندیوں سے بچنے کا عہد کر چکے ہیں۔ غذائی عدم تحفظ اور غذائی قلت اس کے اشارئیوں کی شدت کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو کلیدی چیلنج بھی ہے کیونکہ صرف خوراک کی کمی نہیں بلکہ سرحدی تنازعات‘ موسمیاتی تغیرات اور سیاسی بنیادوں پر مخالفت اور معاشی سست روی کے ساتھ‘ غذائیت سے بھرپور خوراک کی بلند قیمت سے عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح کے مشکل حالات میں‘ ہم سب کو مل کر مشترکہ ذمہ داری کے طور پر متحد ہونے اور مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے ”دنیا کو ٹھیک کرنے کے لئے دنیا کی ضرورت ہے۔“ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبداللہ شاہد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)