پاکستان کی معیشت گزشتہ چند برس کے دوران پیداوار کے مقابلے خدمات کی طرف منتقل ہوئی ہے اور اب خدمات کا کل جی ڈی پی میں حصہ اٹھاون فیصد ہے‘ جس کی بڑی وجہ مینوفیکچرنگ اور زرعی دونوں شعبوں میں کم سرمایہ کاری ہے‘ خدمات کی فراہمی میں ایک اہم ذیلی طبقہ تھوک اور خوردہ تجارت کا ہے‘ جو کل قومی آمدنی کا اُنیس فیصد ہے جیسا کہ آبادی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے اور ملک تجارت پر مبنی معیشت کی طرف منتقل ہوتا چلا جا رہا ہے جو اکثر درآمدی اشیاء کی وجہ سے ہوتا ہے تو بجائے اس کے کہ حقیقت میں ٹھوس اشیا پیدا کرنے والی معیشت بنائی جائے لیکن جی ڈی پی میں تھوک اور خوردہ تجارت کا حصہ بڑھتا چلا گیا لیکن اس سے حاصل ہونے والا ٹیکس کل ٹیکسوں کا صرف تین اعشاریہ سات فیصد ہے‘ یکے بعد دیگرے آنیوالی حکومتیں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور اس میں تھوک فروشوں اور خوردہ فروشوں کو لانے میں ناکام رہی ہیں تاجر یا تو اپنی اجتماعی سودے بازی کی طاقت کے ذریعے یا فیصلہ سازی کے حلقوں کی قربت کے باعث ہمیشہ ٹیکس کے جال سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے ہیں اس کا نتیجہ غیر منصفانہ ٹیکس کے نفاذ کی صورت میں نکلتا ہے‘ جس کا زیادہ تر حصہ پہلے سے بوجھل تنخواہ دار افرادی قوت پر ہے جو نہ صرف اپنے ٹیکس بل میں اضافہ دیکھتا ہے بلکہ حقیقی آمدنی میں نمایاں کمی بھی دیکھی جاتی ہے۔
اسی طرح کارپوریٹ سیکٹر پر بھی بہت زیادہ ٹیکس لگانے کا عمل جاری ہے‘ پاکستان میں ٹیکس کی مؤثر شرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے‘ جس سے کسی بھی ری انویسٹمنٹ پروگرام یا باضابطہ کارپوریٹ نمو پر منفی اثر پڑتا ہے ایک طرف ہمارے پاس ایسے طبقات ہیں جو جی ڈی پی میں زیادہ حصہ ڈالتے ہیں لیکن بمشکل کوئی ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ جب کہ دوسری طرف ہمارے پاس رسمی طبقہ اور تنخواہ دار طبقہ ہے جو اپنی کم آمدنی کے باوجود زیادہ شرح سے ٹیکس ادا کرتا رہا ہے‘ ایسے حالات میں‘ رسمی کاروبار شروع کرنے اور چلانے کی ترغیب موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر کاروباری سرگرمیاں اور کوششیں غیر رسمی طبقے میں ٹیکس لگانے سے بچنے کیلئے ہو رہی ہیں جیسا کہ گزشتہ چند برس کے دوران دیکھا جا سکتا ہے حال ہی میں‘ بجٹ کے دوران تاجروں پر فلیٹ ٹیکس کی شرح عائد کرنے کے بعد‘ حکومت نے اسے واپس لے لیا ہے‘ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یقینا ٹیکس نیٹ کو بڑھانے میں سنجیدہ نہیں لیکن پہلے سے بھاری ٹیکس والے تنخواہ دار ملازمین اور کارپوریٹ طبقہ پر ٹیکس بڑھانا ٹھیک ہے‘ ٹیکس کی مقررہ شرح ختم کرنے کیلئے جو دلیل دی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے چھوٹے خوردہ فروش ہیں اور ان پر کوئی بھی ٹیکس عائد کرنا مناسب نہیں ہو سکتا ایسی دلیل قابل فہم ہے تاہم اس کا یقینی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام تاجر ٹیکس سے مستثنیٰ رہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ملک میں بجلی کے 3.8 ارب سے زیادہ کمرشل صارفین (کنکشنز) ہیں‘ جنہیں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کیلئے ایک اچھا شگون سمجھا جا سکتا ہے یہ فرض کرتے ہوئے کہ چھوٹے خوردہ فروش یا وہ جو ماہانہ ایک سو کلو واٹ گھنٹے (یونٹ) سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں‘ کل کنکشن کا نصف ہیں‘ ہمارے پاس اب بھی قریب 19لاکھ ایسے تجارتی ادارے ہیں جو ممکنہ طور پر اوسطاً 200یونٹس بجلی فی ماہ استعمال کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کمرشل بجلی کے کنکشن کے ذریعے استعمال ہونے والی تمام بجلی کا تقریباً چھپن فیصد پانچ کلو واٹ یا اس سے زیادہ کا لوڈ ہے۔ ایسے اداروں پر ماہانہ دوہزار روپے کا ٹیکس لگانے سے 45ارب روپے سے زائد ٹیکس آمدنی حاصل کیا جا سکتا ہے‘ وہی‘ ایک مقررہ ٹیکس ہونے کے بجائے‘ بجلی کی کھپت کے لحاظ سے سلائیڈنگ پیمانے پر بھی ہو سکتا ہے‘ اس طرح کہ یہ آمدنی کیلئے پراکسی کے طور پر کام کر سکتا ہے‘بجلی کی کھپت کے ساتھ صوابدیدی ٹیکس کا نفاذ حل ہوسکتا ہے‘ تاجروں اور اس طرح کے دیگر تجارتی اداروں کو یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ جب وہ سالانہ ٹیکس جمع کرواتے ہیں تو اسی ٹیکس کو ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔
اس طرح اس طبقہ کے اندر ٹیکس جمع کرانے کا کلچر قائم کیا جا سکتا ہے‘ اسی طرح‘ اسے ایک مربوط پوائنٹ آف سیل سسٹم کیساتھ آن بورڈ کرنے کی حوصلہ افزائی کیلئے ایک ٹول کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ایف بی آر کے ذریعے ”ون ٹائر سٹورز“ کی صورت متعارف کرایا جا رہا ہے اور آخر کار کیش لیس ادائیگیوں کی طرف منتقل ہوا جائے گا کیونکہ اِس کیلئے سازگار ماحول پہلے ہی سے موجود ہے جسے ”راست“ بینکاری کہتے ہیں کسی بھی تجارتی ادارے کیلئے راست نامی اکاونٹ کے ذریعے ادائیگیاں بھیجنا اور وصول کرنا‘ لین دین کی ریکارڈنگ کو فعال کرنا اور معیشت میں گردش میں کرنسی کے مجموعی واقعات کم کرنا مکمل طور پر ممکن ہے‘ جس کے اپنے مثبت مالی فوائد ہیں۔
ایک بار مربوط ’پی او ایس‘ اور ’کیش لیس‘ ادائیگیوں کی طرف منتقلی کے بعد‘ ٹیکس حکام کیلئے کسی حد تک یقین کے ساتھ یہ شناخت کرنا ممکن ہو جائیگا کہ خوردہ فروشوں سے کتنا ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے اضافی ڈیٹا پوائنٹس کی دستیابی بھی مزید بڑھائی جا سکتی ہے ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ کو ایک مقررہ ٹیکس کے خام نفاذ کے ذریعے وسیع کیا جائے‘ ابتدائی طور پر بڑے اداروں کیلئے‘ اس کے بعد چھوٹی مالیت والے چھوٹے اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور اِس کا حتمی مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اس معاملے میں ٹیکس نیٹ کی توسیع اور معیشت کا دستاویزی ہونا ہے یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ایسا کرنے میں ناکام رہی ہیں گزشتہ تین دہائیوں کی غلطیوں کو نہ دہرانا ہی بہتر رہے گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عمار حبیب خان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)۔