انقلابات عالم اور لمحات ِعبرت


رواں ہفتے ٹیلی ویژن اور سمارٹ فون سکرینز پر سری لنکا کے مناظر دیکھنے کو ملے جن میں مظاہرین کولمبو میں سری لنکا کے صدر کی سرکاری رہائش گاہ ’ٹیمپل ٹریز‘ میں ہنگامہ آرائی کررہے تھے۔ دنیا ہم نے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا کہ عمارت کے سبزہ زار میں موجود مظاہرین سوئمنگ پول میں موج مستیاں کررہے ہیں۔ سینڈل‘ شارٹس اور ٹی شرٹ میں ملبوس لوگ عمارت کے پرتعیش رہائشی حصے بشمول بیڈروم میں گھوم پھر رہے تھے جہاں کچھ دنوں پہلے تک سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسا سوتے تھے لیکن اب وہاں صورتحال بالکل بدل چکی تھی۔ کسی مؤرخ کے لئے سری لنکا میں مظاہرین کا محل کے سوئمنگ پول میں نہانے کا منظر نیا نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا منظر بھی ہے جو کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا اشارہ بھی دیتا ہے۔ سری لنکا کا ٹیمپل ٹری بھی شاہی اور صدارتی رہائش گاہوں کی اس طویل فہرست میں شامل ہوگیا ہے جن پر سیاسی بغاوتوں اور انقلابات کے دوران مظاہرین کا قبضہ رہا۔ قومی ریاستوں میں بادشاہوں اور صدور کی رہائش گاہیں طاقت اور اختیار کی علامت ہوتی ہیں۔ یہ عمارتیں طرزِ تعمیر کے اعتبار سے بھی بہت شاندار ہوتی ہیں۔ ان پر جو ضرورت سے زیادہ دولت لگائی جاتی ہے وہ دراصل اس میں رہنے والے رہنما کی طاقت کا اظہار ہوتی ہے۔ ان کی طاقت ان عمارتوں کے مہنگے فرنیچر اور دیواروں پر لٹکتے بیش قیمت فن پاروں سے متعلق ہی ہوتی ہے۔ ان عمارتوں تک رسائی کو بہت سختی کے ساتھ کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ ان کی خصوصی  حیثیت ہوتی ہے۔ یہ دراصل ان منتخب یا غیر منتخب حکمرانوں کے اختیار کو ظاہر کرتی ہے جو ان کے اندر رہائش پذیر ہوتے ہیں۔سری لنکا 1972ء میں جمہوریہ بننے سے قبل برطانیہ کی نوآبادی تھا۔ اس وقت ٹیمپل ٹریز کو کنگز ہاؤس یا کوئینز ہاؤس کہا جاتا تھا۔ یہ برطانوی گورنروں کی رہائش گاہ بنا رہا اور بعد میں ان کی جگہ صدور نے لے لی۔ صدر کا سوئمنگ پول اور رہائش ایسی جگہ ہے جہاں صرف مخصوص لوگوں کو جانے کی ہی اجازت ہوتی ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں غریب سری لنکن شہری نہیں جاسکتے۔ صدارتی سوئمنگ پول میں نہانا ایک طرح سے اجتماعی طور پر بغاوت کا اظہار تھا کہ وہ تمام قوانین اور پولیسنگ جس نے غصے میں بھرے مظاہرین کو محل سے باہر رکھا ہوا تھا وہ قوانین اب مؤثر نہیں رہے۔ کئی عوامل اس صدراتی محل پر قبضے کی وجہ بنے۔ وہاں قومی حکومت اور بہت سے لوگ دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ اشیائے خورد و نوش اور
 پیٹرول کی شدید قلت نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ لوگ کام نہیں کرسکتے اور اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔ اس بحران کے ردِعمل میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے فوری تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے صدر کے استعفے تک محل خالی نہ کرنے کا اعلان کیا اور بلآخر صدر گوٹابایا راجا پاکسا نے 13جولائی 2022ء کو اعلان کیا کہ وہ استعفیٰ دے رہے ہیں اور پھر وہ ملک سے فرار ہوگئے۔نوآبادیاتی میکسیکو کی کہانی بھی سری لنکا جیسی ہے۔ جہاں ہسپانوی وائسرائے بھی ایک عالی شان محل میں رہتا تھا۔ وہ محل میکسیکو سٹی کے سنٹرل پلازہ کے کنارے پر ایک کتھیڈرل کے ساتھ واقع تھا۔ اسے قدیم ایزٹیک ٹیمپلو میئر کے کھنڈرات پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 1692ء میں کثیر النسلی محنت کش طبقے نے حکومت کے خلاف بغاوت کی تو ہجوم نے زبردستی محل کے ممنوعہ کمروں میں گھس کر عمارت کو آگ لگا دی۔ وائسرائے کا محل بعد میں میکسیکو کی تاریخ میں مرکزی کردار ادا کرتا رہا۔ 1810ء کی دہائی میں آزادی کیلئے کی جانے والی جنگ میں میکسیکو کے شہریوں نے دوبارہ ہسپانویوں کے خلاف بغاوت کی جس کے بعد نئی قومی حکومت نے میکسیکو کے نئے صدر کو محل میں بٹھا دیا اُور یوں یہ محل نو آبادیات مخالف یادگار بن گیا۔یورپ میں ورسائے کا شاہی محل انقلابِ فرانس میں ڈرامائی واقعات کا مرکز رہا۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: کرسٹی پٹریکا فلیزی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)