اس وقت اگر چہ ڈالر کی قیمت میں کمی اور روپیہ کی قدر مستحکم ہونے کا سلسلہ کئی دنوں سے جاری ہے تاہم مجموعی طور پرسیاسی غیر یقینی صورتحال کے معاشی نتائج نے پاکستانی کاروبار کو متاثر کیا ہے۔ کاروباری اداروں کو جہاں اندرون ملک مسائل کا سامنا ہے وہیں عالمی کساد بازاری بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ برآمدکنندگان کو سپلائی چین کنٹینر کی قلت اور تاریخ کے سب سے زیادہ ٹرانسپورٹ چارجز کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں۔ عالمی اجناس کی شرحیں بلند ہیں۔ ملکی محاذ پر معیشت مکمل طور پر زبوں حالی کا شکار ہے۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہونے کی وجہ سے عوام کی قوت خرید ہر دن کم ہو رہی ہے۔ بینکوں کی طرف سے قرضوں پر سود (مارک اپ) بھی تاریخ کا بلند ترین ہے جس نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام ہمیشہ معیشت کے لئے باعث مشکل ہوتا ہے لیکن غیر مستحکم دنیا میں یہ مشکلات کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ اِن حالات میں جبکہ اُداس عالمی معیشت میں ہر ملک کو ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنی رٹ کو بروئے کار لا سکے اور مشکل فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
ایک اچھی حکمرانی والی معیشت بحران سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں کامیاب رہتی ہے۔ موجودہ حکومت اور اس کے پیشرو معیشت کی اصلاح کی کوششیں تو کر رہے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی مجبوری اِن کی بقا بھی ہوتی ہے۔ پاکستان میں کاروباری اداروں کو ماضی میں کبھی بھی اِس قدر غیریقینی پر مبنی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور جب ماہرین سے پوچھا جائے کہ یہ دور کب ختم ہوگا تو وہ بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ معاشی غیریقینی کی موجودہ صورتحال کیا ہے اِسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں کرنسی مارکیٹ میں ہنگامہ آرائی دیکھی گئی تھی جس کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر میں غیرمعمولی اور غیرفطری کمی ہوئی تھی۔ انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے روپیہ 240 روپے جیسی بلند سطح پر جا پہنچاتھا۔ تمام درآمدی مصنوعات اور خام مال کی قیمتوں میں تین ماہ کے دوران بیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ موٹرگاڑیوں (آٹو کار) مینوفیکچررز نے گزشتہ 90 دنوں کے دوران گاڑیوں کی قیمتوں میں اوسطاً اٹھارہ سے بیس فیصد اضافہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے پیشگی آرڈرز لینا بھی بند کر دیا ہے کیونکہ انہیں یقین نہیں ہے کہ اگلے تین مہینوں میں جب ڈیلیوری واجب الادا ہو جائے گی تو اُس وقت روپے کی قیمت کیا ہوگی۔
اگر عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) آئندہ دو ہفتوں میں اپنے عملے کی سطح پر پاکستان کو قرض دینے سے متعلق معاہدے کی منظوری دے دیتا ہے تو اِس سے روپے کی قدر مستحکم ہوجائے گی۔ درحقیقت امید کی جا رہی ہے کہ عالمی بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک اور بعض دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کے لئے روکی ہوئی امداد بھی ’آئی ایم ایف‘ کے قرض سے مشروط ہے اور جیسے ہی پاکستان کو ’آئی ایم ایف‘ سے قرض ملے گا‘ دیگر ممالک کی امداد اور قرض ملنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ اگر آمدن برقرار رہی تو ڈالر کے مقابلے روپیہ بیس سے تیس پوائنٹس بڑھ سکتا ہے یعنی ڈالر کی قدر چالیس سے ساٹھ فیصد کم ہو سکتی ہے تاہم اگر ’آئی ایم ایف‘ سے قرض کی آئندہ قسط منظوری میں تاخیر ہوئی یا انکار کر دیا گیا تو روپے پر دباؤ برقرار رہے گا۔ پاکستان کی برآمدات جولائی میں 25فیصد کم رہی۔ سیمنٹ کی پیداوار 44فیصد کمی رہی۔ کچھ موٹرگاڑیاں بنانے والی صنعتوں (آٹو کار مینوفیکچرنگ اِداروں) نے اگست میں دو ہفتوں تک فیکٹریاں بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ درآمدات میں 33فیصد سے زائد کمی آئی ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کے لئے ’سٹیٹ بینک آف پاکستان‘ نے مزید (نئے) ”لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز)“ کھولنے میں تکنیکی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ خام مال کی قلت نے پیداواری عمل کو متاثر کیا ہے۔ اس سے روپے پر مزید دباؤ بڑھ گیا ہے۔
اِس صورتحال میں زیادہ تر پیشہ ور کاروبار سے زیادہ مالی تحفظ کی تلاش میں ہیں۔ تمام بڑے اداروں نے قومی اقتصادی مسائل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے بات چیت کے ذریعے ’میثاق معیشت‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر ’میثاق معیشت‘ حاصل ہو گیا تو اس سے موجودہ غیر یقینی صورتحال بڑی حد تک دور ہو جائے گی۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز‘ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور حال ہی میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے کہا ہے کہ ”چارٹر آف اکانومی“ متعارف کرایا جائے۔ سرمایہ کار صرف اُسی صورت طویل مدتی صنعتی منصوبوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جب انہیں اِس بات کی اُمید ہو کہ قومی صنعتی پالیسیاں دس سے پندرہ سال تک تبدیل نہیں ہوں گی۔ فی الحال‘ کسی شعبے سے متعلق اقتصادی پالیسی کی زیادہ سے زیادہ عمر ’پانچ سال‘ ہے تاہم پالیسیاں ان حکومتوں کی طرف سے بھی تبدیل ہو جاتی ہیں جنہوں نے ان کی منظوری دی تھی۔ حکومتوں کی تبدیلی سے چند پالیسیاں باقی رہتی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والی صنعتیں اور کاروبار مشکل میں ہیں۔ یہ وقت ہے کہ سیاسی یک جہتی کا مظاہرہ کیا جائے اور ایسے فیصلوں کی حمایت کی جائے جو پائیدار ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ اگر حکومت سمگلنگ کے خلاف متحد ہو جائے تو سمگلنگ میں کمی آئے گی۔ حکومت کی سخت کاروائی سمگلروں کے لئے اپنی انوینٹری کو ٹھکانے لگانا ناممکن بنا سکتی ہے۔ صرف سمگلنگ ختم کرنے سے ہی معیشت کو آمدنی میں کم از کم بیس فیصد اور مقامی پیداوار میں دس فیصد تک کا اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ ہدف بھی سیاسی استحکام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: منصور اے۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)