انفارمیشن ٹیکنالوجی:تعلیم و تربیت

انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور آئی ٹی اینبلڈ سروسز (آئی ٹی ای ایس) کا شعبہ پاکستان کی معیشت میں تیزی سے ترقی کرنے والے چند شعبوں میں شامل ہے رواں برس کے دوران ’آئی ٹی‘ کی برآمدات تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر ہونے کی توقع ہے‘ جو گزشتہ سال دو اعشاریہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ تھیں گزشتہ پندرہ برس میں‘ زیادہ تر ’آئی ٹی‘ اور ’آئی ٹی ای ایس‘ شعبوں (سیکٹرز) کی سالانہ برآمدی نمو دوہرے ہندسوں میں مستحکم رہی ہے مکمل طور پر ترقی یافتہ‘ یہ شعبہ غیر ملکی زرمبادلہ کی ضروریات پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ مذکورہ عرصے کے دوران مختلف اوقات میں یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اِن شعبوں سے متعلق اصلاحات متعارف کروائیں تاہم مجموعی طور پر ایسا ماحول فراہم نہیں کیا جا سکا جس میں ’آئی ٹی‘ کا شعبہ پھلے پھولے اور اِس میں موجود ترقی (نمو) کے امکانات سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جا سکے بورڈ آف انویسٹمنٹ کا دوہزار چھ سے دو ہزار اُنیس تک ’آئی ٹی سیکٹر‘ کی جانب سے درآمدات پر خرچ کیا گیا فاریکس بمقابلہ برآمدات (ایکسپورٹس) سے کمائے گئے۔

 فاریکس کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح اضافی فاریکس اخراجات برآمدات میں غیر متناسب اور غیرموافق رہے۔ گزشتہ سال (دوہزاراکیس) اگست میں پاکستان سافٹ وئر ہاؤسز ایسوسی ایشن نے اپنی جائزہ رپورٹ جاری کی‘ اِس تفصیلی رپورٹ میں پاکستان کی ’آئی ٹی‘ صنعت میں مختلف قسم کے کرداروں کے معاوضوں کو دستاویزی شکل دینے کو بھی موضوع بنایا گیا ڈیٹا کو مقام‘ کردار‘ تجربے‘ کمپنی کے حجم‘ کمپنی کی اقسام‘ جنس کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا‘پچھلی چند دہائیوں میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کمپیوٹر سائنس اور اس سے متعلقہ پروگراموں کے فروغ کے باوجود ’آئی ٹی سیکٹر‘ کو ہنر مند‘ قابل پیشہ ور کارکنوں کی کمی کا سامنا ہے اس کا ثبوت اس حقیقت سے ملتا ہے کہ پچاس فیصد کمپنیوں نے مارکیٹ میں تجربہ کار انسانی وسائل کی کمی کا حوالہ دیا ہے اور سترہ فیصد نے ملازمین کی کمی کو تنخواہوں میں اضافے کی وجہ قرار دیا‘ عملے کے ٹرن اوور کی شرح اس بات کا مزید ثبوت فراہم کرتی ہے کہ یہ ایک تجربہ کار اور اہل کارکن کی مارکیٹ ہے۔ عملے کی ٹرن اوور کی شرح دوہزارسترہ سے دوہزاربیس کے درمیان چودہ سے اٹھارہ فیصد کی حد سے بڑھ کر دوہزاراکیس میں تیس فیصد تک پہنچ گئی۔

رپورٹ میں یہ اہم بات بھی کی گئی کہ ’آئی ٹی‘ کی صنعت‘ تعلیمی روابط اور یونیورسٹی کی درجہ بندی ہونی چاہئے یہ یونیورسٹیوں کی کئی درجہ بندیوں پر مشتمل نمونہ ہے جیسا کہ کمپنیوں کی جانب سے گریجویٹس کو اعلیٰ تنخواہوں کی پیشکش‘ تحقیق اور اختراع کی سرپرستی‘ عملے میں گریجویٹس کی تعداد بڑھانا شامل ہیں‘ تقریباً تمام درجہ بندیوں میں درج یونیورسٹیاں‘ نزولی ترتیب میں (زوال پذیر) ہیں چند ماہ قبل ”کامیاب جوان پروگرام“ کے تیسرے مرحلے کیلئے درخواستیں طلب کی گئیں اِس پروگرام نے مختلف دورانیے کے 240 مختلف شعبوں میں ہنر مندی کی تربیت پیش کی گئی تھی جو عام طور پر ان لوگوں کیلئے تھی جو ہائی سکول یا اس سے کم تعلیم یافتہ تھے‘ایک تعلیمی محقق یونیورسٹی کی ڈگریاں رکھنے والے درخواست دہندگان میں بہت دلچسپی رکھتا ہے لیکن یہاں صورتحال مختلف نکلی‘ 2لاکھ 79 ہزار درخواست دہندگان میں سے 74 کے پاس پی ایچ ڈی جبکہ 29 ہزار 225 کے پاس ایم اے یا ایم ایس سی کی ڈگریاں تھیں اور 76 ہزار899 بی اے یا بی ایس سی پاس تھے۔

 حیرت انگیز طور پر ٹیکنالوجی میں نوجوانوں کی دلچسپی پائی جاتی ہے’آئی ٹی‘ میں یہ دلچسپی ایپلی کیشنز کے لحاظ سے سرفہرست پانچ پروگراموں میں ہے جن میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور سرچ انجن آپٹیمائزیشن‘دوسرا ایمیزون ورچوئل اسسٹنٹ‘ تیسرا آئی ٹی (ویب گرافکس اور موبائل ایپ ڈویلپمنٹ) چوتھا سائبر سکیورٹی اور پانچواں کمپیوٹر ایپلی کیشن اینڈ آفس پروفیشنل کورس جس میں ہر ایک کیلئے بالترتیب چوبیس ہزار اور اٹھارہ ہزار کے درمیان درخواستیں موصول ہوئیں‘ قابل توجہ بات یہ ہے کہ بڑی جامعات (یونیورسٹیاں) طلبہ کو ڈگریاں تو دے رہی ہیں لیکن طلبہ کو ملازمت کیلئے قابل نہیں بنا رہیں اور یہی وجہ ہے ڈگریاں حاصل کرنے والے اب تربیت حاصل کرنا چاہتے ہیں‘پاکستان میں ’آئی ٹی‘ اور اِس سے متعلق دیگر شعبوں کا فروغ صرف اُسی صورت ہوگا جب تعلیم کے ساتھ تربیت کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جائے ’آئی ٹی‘ کے بارے میں کتابی باتیں جاننا کافی نہیں جب تک طلبہ عملی زندگی میں اِس سے استفادہ اور رہنمائی حاصل نہ کر سکیں (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)