اعتماد بحال کرنے کی ضرورت

پاکستان کے سیاسی ماحول کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس میں سیاست اور سیاست دان ایک دوسرے کے لئے واجب الاحترام ٹھہریں اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اپنے مخالفین کو بُرا بھلا کہنے کا سلسلہ رک جائے کیونکہ اِس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ سیاست اور سیاست دانوں پر عوام کا اعتماد ختم  ہونے کا خطرہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ سیاستدان ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے حامی ان کے بارے میں کوئی بھی منفی بات سننا گوارہ نہیں کرتے۔ اگر ان کے سامنے حقائق بھی رکھے جائیں تو وہ انہیں جھٹلا دیتے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس طرح ان لوگوں پر اس کے اثرات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو کسی قسم کی سیاسی وفاداری نہیں رکھتے۔ اگر انتخابات کے ٹرن آؤٹ کو مثال بنایا جائے تو یہ ملک کی تقریباً نصف آبادی بنتی ہے۔

سال 2018ء کے عام انتخابات میں ووٹ دینے کے اہل تقریباً پچاس فیصد افراد نے ووٹ نہیں ڈالا۔ یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے اکثریت کی کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں ہوگی۔ جب لوگ سیاستدانوں کو اپنے مخالفین پر الزامات عائد کرتے دیکھتے ہیں تو وہ یہ تاثر لیتے ہیں کہ ہماری پوری سیاسی اشرافیہ خود غرض ہے اور اس کی اپنی کوئی ساکھ نہیں ہے۔ حکومت اور حزبِ ِاختلاف کے درمیان جاری محاذ آرائی کے نتیجے میں سیاسی تقسیم ریکارڈ سطح تک پہنچ چکی ہے۔  اعتماد کے اس فقدان کے بعد سیاسی عمل سے دور (الگ) ہونے کا مرحلہ آتا ہے جو جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ جمہوریت کے لئے متحرک اور ’پْراعتماد‘ شہریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب عوام میں یہ تاثر پروان چڑھنے لگے کہ سیاست عوامی مقاصد کے تحت نہیں کی جارہی تو پھر جمہوری نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔ کسی بھی نظام کو چلانے کے لئے اعتماد کا عنصر بہت اہم ہوتا ہے۔ 

سیاسی پیچیدگیوں کو ایک جانب رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو پاکستان وہ واحد ملک نہیں ہے جہاں سیاسی نظام اور حکومتوں پر عوام کا اعتماد کم ہورہا ہے بلکہ یہ رجحان اب دنیا بھر میں نظر آرہا ہے۔ اس حوالے سے ہوئے مطالعات سے مختلف ممالک کے تناظر میں مختلف عوامل کی وضاحت سامنے آئی ہے جن میں کچھ چیزیں مشترک ہیں۔ جن مجموعی وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں سیاستدانوں سے بڑھتی ہوئی اور پوری نہ ہونے والی امیدیں‘ سیاسی اشرافیہ اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری‘ معاشی کارکردگی کے حوالے سے عوامی تنقید اور معلومات کے حصول میں آنے والا انقلاب ہے جو عوام کو کئی طرح سے بااختیار بنا رہا ہے۔ ان مباحث میں جو اہم عوامل سامنے آئے وہ سیاسی تفریق کے منفی مضمرات ہیں جو مشرق و مغرب میں یکساں پھیلے ہوئے ہیں۔

 کیا یہ سب کچھ سیاسی رہنماؤں اور جمہوری  اداروں پر اعتماد کا بحران پیدا نہیں کر رہا اگرچہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان میں جمہوری اداروں پر اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے اگر سیاسی رہنما  عوامی تحفظات کو سیاسی مفادات پر فوقیت دیں اور یہ بھی مان لیں کہ سیاسی مخالفین کوئی دشمن نہیں بلکہ سیاسی اختلاف رائے رکھنے والے حریف ہیں۔ سیاست میں اختلافات ہمیشہ موجود رہتے ہیں کیونکہ اختلاف رائے سے ہی بہتری کا راستہ نکلتا ہے تاہم اختلاف رائے کو اس حد تک نہیں لے جانا چاہئے کہ ایک دوسرے کی رائے کو بالکل ہی نظرانداز کیا جائے سیاست میں مفاہمت کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے خاص کر ایسے حالات میں جب ملک کو معاشی مشکلات کا بھی سامنا ہے سیاسی قیادت کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ باہمی اختلاف رائے کو ایک طرف رکھتے ہوئے میثاق معیشت کے ذریعے معاشی مشکلات کو کم کرے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ملیحہ لودھی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)