میثاق معیشت

سال دوہزاراٹھارہ میں جب میاں شہباز شریف‘ اس وقت کے قائد حزب اختلاف تھے تب اُنہوں نے ”چارٹر آف اکانومی (میثاق معیشت)“ نامی تصور پیش کیا تھا۔ جون دوہزاربائیس میں‘ وزیر اعظم شہباز شریف نے بجٹ سے پہلے کی گئی پریس کانفرنس میں بھی میثاق معیشت کے تصور اور اپنے مطالبے کا اعادہ کیا اور ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں (متعلقہ فریقین) پر زور دیا کہ وہ ایک غیر متغیر پالیسی فریم ورک تشکیل دینے میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں لیکن میثاق معیشت تصور سے حقیقت کا روپ نہ لے سکی۔
پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات بحران کی شکل اختیار کر چکی ہیں اور وہ عالمی ادارے جو دنیا میں درآمدات و برآمدات پر نظر رکھتے ہیں اُنہوں نے (جون دوہزاربائیس میں) پاکستان کی مالیاتی صلاحیت کو منفی قرار دیا۔ ”موڈیز“ کی جانب سے ملک میں سیاسی عدم استحکام‘ ہنگامہ آرائی اور غیریقینی سیاسی مستقبل جیسے محرکات کو پاکستان کے معاشی استحکام کی راہ میں حائل رکاوٹ قرار دیا گیا۔ جولائی دوہزاربائیس میں‘ تین بڑی عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں میں سے ایک نے پاکستان کے آؤٹ لک (ساکھ) کو منفی کر دیا۔ ”فچ“ نامی ادارے نے اِس تنزلی کے درپردہ محرکات اور وجوہات کو بیان کرتے ہوئے ملک کے سیاسی ماحول کا حوالہ دیا۔ اِسی طرح جولائی دوہزاربائیس میں‘ ایک اور عالمی ریٹنگ ایجنسی ”ایس اینڈ پی“ نے بھی پاکستان کی طویل مدتی ریٹنگ پر آؤٹ لک کو منفی کہا اور اِس کی وجہ بھی ”سیاسی عدم استحکام“ اور اِس سے جنم لینے والی وجوہات کو قرار دیا گیا۔ 
سال 1960ء سے 2022ء کے درمیان اٹلی کے 36 وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ اسی عرصے میں پاکستان میں 16 وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ اٹلی میں فی کس آمدنی 1960ء میں 804 ڈالر سے بڑھ کر چھتیس ہزار ڈالر ہوگئی ہے جبکہ سال 1960ء میں پاکستان میں فی کس آمدنی 83ڈالر سے بڑھ کر 2022ء میں پندرہ سو ڈالر ہوئی۔ 1960ء سے 2022ء کے درمیانی عرصے میں جاپان کے 29 وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ پاکستان کے لئے جاپان اور اٹلی کی مثالوں میں کیا سبق پوشیدہ ہے؟ اٹلی اور جاپان سے معلوم ہوا کہ جہاں سیاسی استحکام ہوتا ہے وہاں اقتصادی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے اور سیاسی استحکام اقتصادی ترقی کی گاڑی کو پٹڑی سے اُترنے نہیں دیتا۔ 
ورلڈ بینک کے مطابق ”پاکستان کے پاس اس قدر وسائل اور اِس قدر افرادی قوت ہے کہ یہ  2 کھرب ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے۔“ ورلڈ بینک ہمیں بتاتا ہے کہ پاکستان ایک ”بالائی و درمیانی آمدنی والا ملک بن سکتا ہے جہاں فی کس آمدنی پانچ ہزار سات سو ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ورلڈ بینک ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ”پاکستان کی معیشت کا حجم (معاشی سائز)‘ اِس کی ترقی کے عوامل اِس قدر ہیں کہ پاکستان کی ممکنہ سالانہ برآمدات 88 ارب ڈالر سے زائد ہو سکتی ہیں۔“ 
پاکستان کے پاس اہلیت (ٹیلنٹ) اور وسائل (ریسورسیز) کی کوئی کمی نہیں ہے ہمیں بس معیشت کو لاحق ’سیاسی خطرات‘ پر قابو پانا ہے اور یہی وہ اہم ترین ضرورت ہے جو ملک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے آگے بڑھا سکتی ہے۔ ہمیں بس دو الگ الگ شعبے بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک ’سیاسی دائرہ‘ اور ایک ’اقتصادی دائرہ‘۔ ”معاشی دائرہ“ حکمت عملی کا وہ جز ہو گا جو معاشیات کے مقاصد کا تعین کرے گا اور ”سیاسی دائرہ“ وہ حصہ (ڈومین) ہوگا جس کی وجہ سے معاشی حکمت عملیوں کو تسلسل حاصل ہو گا۔ 
یہ قابل قدر بات اپنی جگہ اہم ہے کہ وزیراعظم بننے سے قبل اور وزیراعظم بننے کے بعد میاں شہباز شریف ’میثاق معیشت‘ کی تجویز پیش کر رہے ہیں اور اگر اِس مشورے کو مان لیا گیا تو پاکستان کی معیشت پھر سے رواں دواں ہو سکتی ہے۔ خوش قسمتی قرار دی جا سکتی ہے کہ پاکستان کو ایک ایسا وزیراعظم ملا ہے جس نے قومی بھلائی کے لئے اپنے سیاسی مفادات کو قربان کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ ہمارے پاس ایک ایسا وزیر اعظم ہے جو پچھلے چار برس سے ”تمام اسٹیک ہولڈرز کو اقتصادی ترقی کے حصول کے لئے ایک فریم ورک بنانے میں تعاون کرنے“ کی دعوت دے رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اچھے رہنما مسائل اور بحرانوں کا حل تلاش کرنے کی پرخلوص کوشش کرتے ہیں اور جہاں کوشش ہوتی ہے وہیں اچھے نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ اچھے رہنما لوگوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اچھے رہنما قومی اتفاق رائے چاہتے ہیں۔ اچھے رہنما قومی ہم آہنگی چاہتے ہیں۔  اچھے رہنما عجزوانکساری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔پاکستان کو ایسے اچھے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو قومی یک جہتی اور سیاسی استحکام کے لئے اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لئے مربوط و غیرمشروط معاشی ترقی کا لائحہ عمل تشکیل دیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)