بھارت: جمہوریت کا (اصل) چہرہ

75سال پہلے بھارت نے آزادی حاصل کی اور خود کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا۔ غیرقانونی طور پر ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر‘ پنجاب‘ میزورم‘ منی پور‘ ناگالینڈ‘ آسام‘ اروناچل پردیش‘ میگھالیہ‘ تریپورہ اور دس یا اس سے بھی زیادہ ریاستوں کو متاثر کرنے والی نکسلی تحریک کے علیحدگی پسند اور آزادانہ تحریکیں ناقابل فراموش ہیں۔ سال دوہزارچودہ میں‘ انتہائی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار میں آئی اور ہندوستان کا سیاسی منظر نامہ دہشت گردی میں بدل گیا۔ یہ واضح تھا کہ نہرو کے سیکولر نظریات کو ہندوتوا کے جنون سے خطرہ لاحق تھا‘ جب ”گجرات کے قصائی“ نریندر مودی نے بنگلور میں ایک انتخابی ریلی میں اعلان کیا ”میں پورے خطے سے دہشت گرد لہریں اٹھتے دیکھ سکتا ہوں اور کتنا دلکش نظارہ ہے! بی جے پی میں ہندو قوم پرست تنظیمیں شامل ہیں جن کی تعداد ساٹھ سے زیادہ ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) بدنام زمانہ ہے اور یہی بی جے پی کی سیاسی طاقت کا مرکز ہے۔ ایک سو بیس سے زیادہ ممالک میں تین ہزار سے زیادہ شاخوں کے ساتھ‘ آر ایس ایس اور اس سے ملحقہ ادارے‘ جیسے کہ وی ایچ پی‘ ایچ ایس ایس وغیرہ غیر ملکیوں سے چندہ جمع کرتے ہیں۔

 ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس کا بھارت کی تعلیمی‘ سماجی اور دفاعی پالیسیوں پر کافی اثر و رسوخ ہے۔ بابری مسجد کی تباہی کے بعد تشکیل دی گئی لبرہان کمیشن کی رپورٹ نے اس کی تباہی کی ”بنیادی ذمہ داری“ سنگھ پریوار کے اندرونی مرکز کے طور پر آر ایس ایس‘ وی ایچ پی‘ شیوسینا‘ بجرنگ دل اور بی جے پی کی اعلیٰ قیادت پر عائد کی۔ کمیشن نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ”ایودھیا مہم نے یہ ظاہر کیا کہ سنگھ پریوار ایک سیاسی پارٹی کا انتہائی کامیاب اور کارپوریٹائزڈ ماڈل ہے‘ جس میں انتہائی موثر تنظیمی ڈھانچہ ہے۔“ سنگھ پریوار کو ہندوتوا نظریہ ہندوؤں کے لئے ہندوستان جیسی منصوبہ بندی کرنے اور اسے پورا کرنے میں کئی سال لگے۔ ہندو راشٹر میڈیا کو متحرک کرنے اور اثر انداز کرنے اور لوگوں میں اپنی چمک پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ بابری مسجد کا انہدام صرف اس بات کا اشارہ تھا کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے پر کیا کیا جانا تھا۔ 

آر ایس ایس‘ ونائک دامودر ساورکر کے ہندوتوا ویژن سے متاثر ہو کر‘ برسوں کے دوران یہ افسانہ بنانے میں کامیاب رہی کہ ہندو مذہب دیگر مذاہب کی موجودگی اور عمل کی وجہ سے خطرے میں پڑ گیا ہے اور ہندو تب ہی محفوظ رہیں گے‘ جب ہندوستان کو ہندو ریاست میں تبدیل کر دیا جائے۔ اس افسانے نے زور پکڑا اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی جب دوہزارچودہ میں بی جے پی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور نریندر مودی نے ہندوؤں کو سیکولرازم کے خطرات سے ”بچانے“ کا عہدہ سنبھالا۔ مسلمان ہندوستان کی آبادی کا چودہ فیصد ہونے کے ناطے‘ سب سے بڑی اقلیتوں میں سے ایک ہیں لیکن پھر بھی ہندوتوا کے پرستار رہنماؤں کی طرف سے انہیں ”خارجی“ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اسلام مخالف اور مسلم مخالف مؤقف نے زور پکڑا ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ سیکولر ہندوستان کی قیادت اب ایک فاشسٹ حکومت کر رہی ہے جو اپنے ہندوتوا کے مقصد کے لئے اقلیتوں پر ظلم و ستم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

 مودی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ اور ان پر عمل پیرا پالیسیوں کو آر ایس ایس کی آشیرباد حاصل ہے اور ان کی تشکیل سنگھ پریوار کے تھنک ٹینکس جیسے ہندو وویک کیندر‘ وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن اور اکھل بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا سے ہوتی ہے‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ وی آئی ایف کے بانی کوئی اور نہیں بلکہ اجیت ڈوول ہیں‘ جو ہندوستان کے موجودہ اور سب سے طویل عرصے تک چلنے والے قومی سلامتی کے مشیر ہیں۔ اس پبلک پالیسی تھنک ٹینک کے پاس لیفٹیننٹ جنرل گوتم بنرجی اور تلک دیواشر جیسے لوگ ہیں۔ دوہزاراُنیس کے عام انتخابات سے قبل نئے شہریت کے قوانین منظور کئے گئے‘ اپوزیشن کی تمام آوازوں کو دباتے ہوئے اور مودی کی دوسری مدت کے لئے راہ ہموار کی گئی۔ تقریباً ایک سو بیس ملین ووٹرز‘ جن میں ایک اندازے کے مطابق سات کروڑ مسلمان اور دلت شامل تھے‘ کے نام انتخابی فہرستوں سے ہٹا دیئے گئے۔

 سب سے بڑھ کر، 1950ء اور 1960ء کی دہائی سے آسام میں آباد ہونے والے تقریباً بیس لاکھ مسلمان مہاجرین کی شہریت منسوخ کر دی گئی۔ اب انہیں ”غیر قانونی درانداز“ قرار دیا گیا ہے۔ مسلم مخالف مہم نے ایک نیا موڑ اس وقت لیا جب مودی نے اکھنڈ بھارت کے فریب کو بھانپنے کے لئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کو ہندو امیگریشن‘ غیر کشمیریوں کو جائیداد کے حقوق دینے اور ہندوؤں کے لئے نئی بستیاں قائم کرنے کے ذریعے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ نہرو کا خیال تھا کہ ”حقائق حقائق ہیں اور آپ کی پسند کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوں گے“ پھر بھی ناجائز کو جائز بنانے کے لئے‘ بی جے پی کی سرپرستی اور آر ایس ایس کی رہنمائی میں تاریخ کی کتابیں دوبارہ لکھی جا رہی ہیں تاکہ ہندوستانی ثقافت اور تاریخ میں مسلمانوں کے کردار کو کم دکھایا جا سکے۔

 مودی کے فاشسٹ دور حکومت میں انسانی حقوق کی بہت زیادہ خلاف ورزیاں ہوئی ہیں جو نہرو کے جمہوری نظریات کے خلاف ہیں‘ اقلیتوں پر ظلم‘ دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک‘ مسلمانوں کی جبری تبدیلی مذہب‘ گائے کے گوشت اور گائے کے ذبیحہ پر پابندی‘ غیر قانونی حراست‘ ماورائے عدالت قتل‘ عصمت دری خاص طور پر مسلمانوں اور ماؤنوازوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ اقلیتوں پر منصوبہ بندی اور بنا منصوبہ بندی حملے ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں اور دلتوں کے لئے روزگار کے مواقع کم ہیں۔ جبری نقل مکانی اور بے دخلی ہو رہی ہے اور ایسے قوانین کی منظوری کی گئی ہے جس سے بعض کمیونٹیز اور ان کی مذہبی حساسیتیں متاثر ہوئی ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد پر حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ بھارت میں جمہوریت‘ جو بی جے پی چلا رہی ہے ایک ڈھونگ اور دھوکہ ہے‘ جو واضح طور پر گرتے ہوئے سیاسی سکور سے ظاہر ہے۔ ڈاکٹر لارنس برٹ نے فاشسٹ حکومتوں کے چودہ پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ طاقتور قوم پرستی‘ انسانی حقوق کی تلفی اور نفرت کسی انسانیت دشمن کی پہچان کے لئے کافی محرکات ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: آصف اقبال۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)