آبنائے تائیوان اُور یوکرین تنازعہ

امریکہ تائیوان میں سیاسی مداخلت کے ذریعے چین کو پیغام دے رہا ہے جو دو عالمی طاقتوں کے درمیان خطرناک تنازعے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ 2 اگست کے روز امریکی فوج کے زیراستعمال ایک خصوصی فوجی طیارے C40 کے ذریعے نینسی پلوسی ’تائی پے‘ کے ’سونگشن ائربیس‘ پر اُتری۔ یہ اُن کا تائیوان کا پہلا دورہ تھا جو ایک ایسے وقت میں کیا گیا جبکہ آبنائے تائیوان میں جنگی مشقیں جاری تھیں اور صورتحال ہر دن کشیدہ ہوتی جا رہی تھی۔ ذہن نشین رہے کہ C40 ٹرانسپورٹ طیارہ ’جیٹ بوئنگ 700-737‘ کی تبدیل شدہ شکل ہے جو فوجی استعمال کے لئے بنایا گیا ہے اور اِس کا استعمال اعلیٰ فوجی اور حکومتی سیاسی رہنماؤں کی نقل و حرکت کے لئے کیا جاتا ہے۔ ’تائیوان نیوز‘ کے مطابق پلوسی کے وفد میں ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کے سربراہ گریگوری میکس‘ سابق فوجیوں کے امور پر ہاؤس کمیٹی کے سربراہ مارک تاکانو‘ ہاؤس ویز اینڈ مینز کمیٹی کی نائب سربراہ سوزان ڈیل بینی‘ ایوان کی مستقل سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کے رکن راجہ کرشنا مورتی اور اینڈی کم شامل تھے جو ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی اور ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کے ممبر ہیں۔ امریکہ نے جان بوجھ کر فوجی طیارے کا استعمال کرتے ہوئے ایک وفد تائیوان بھیجا جو درحقیقت چین کو سخت پیغام دینے کے لئے ہے کہ آنے والے دنوں میں آبنائے تائیوان میں امریکہ اپنی فوجی موجودگی بڑھانے کے لئے تیار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تائیوان چین اور امریکہ کے درمیان اقتدار کی جنگ کا اگلا میدان بننے جا رہا ہے؟ کیا تائیوان دوسرا یوکرین بن رہا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ یوکرین میں جو کچھ ہوا‘ خاص طور پر نومبر 2013ء میں یورو کی تبدیلی کے بعد اور روس و یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ اور بحیرہئ جنوبی چین میں حالات کی کشیدگی تک اِن سب میں مماثلت اور تفاوت موجود ہے۔ تزویراتی ماحول اور خطے میں مختلف قوتوں کی موجودگی ایسا محرک ہے جو مشرقی یورپ اور آبنائے تائیوان کے دو خطوں میں فرق واضح کرتا ہے۔ ایک طرف انڈو پیسفک میں امریکی پالیسی کواڈ پلس میکانزم ہے تو دوسری طرف انڈو پیسفک ساحلی علاقوں میں چین کی حاکمیت ہے اگرچہ یوکرین بین الاقوامی طور پر روسی فیڈریشن کا حصہ نہیں لیکن یہ جغرافیائی قربت کی وجہ سے روسی فیڈریشن کے زیر اثر آتا ہے۔ تائیوان ایک بالکل مختلف قسم کا میدان جنگ ہے۔ بین الاقوامی دعوؤں کے لحاظ سے چین کی ’ایک چائنہ پالیسی‘ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے‘ تائیوان کی اقوام متحدہ میں کوئی نشست نہیں اور چین اس کے مادر وطن حصہ ہونے پر پختہ یقین رکھتا ہے۔ یوکرین کا روسی فیڈریشن کے ساتھ جغرافیائی رابطہ اور زمینی راہداری ہے‘ تائیوان کی صورت میں یہ آبنائے تائیوان کے ذریعے سرزمین چین سے الگ ہے اور اس سے دونوں طرف کچھ دلچسپ فوجی آپشنز پیدا ہوتے ہیں۔ آبنائے تائیوان کے پار کسی بھی فوجی آپریشن کے لئے چینی فوج کو مضبوط بحری اور فضائی طاقت کو بھی تعینات کرنا ہوگا۔ نینسی پیلوسی کے دورے کے موقع پر‘ چینی فوج (پی ایل اے) نے جارحانہ انداز اپنایا اور جزیرے کو چھ اطراف سے گھیر کر ایک کثیر جہتی مشترکہ مشق شروع کر دی۔

اس جارحانہ انداز کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ چین تائیوان سے متعلق اپنی پالیسی سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے اور وہ اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لئے تمام ممکنہ فوجی و غیرفوجی ذرائع استعمال کرے گا اگرچہ امریکہ ہند‘ بحرالکاہل خاص طور پر بحیرہ جنوبی چین میں معقول حد تک مضبوط فوجی موجودگی کو برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن وہ اب بھی تائیوان سے دور ہے۔ جاپان بھارت اور آسٹریلیا تائیوان کے دفاع میں مماثل فوجی صلاحیت پیش کرتے ہوئے امریکہ کی مدد نہیں کر سکتے جبکہ چین کے پاس فوجیان صوبے میں اپنے زمینی اور بحری اڈوں کے ساتھ ساتھ ایسٹرن تھیٹر کمانڈ سے افواج رکھنے جیسی سہولت موجود ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو لاجسٹک ٹیل کی ضرورت ہوگی‘ مطلوبہ صلاحیت کے ساتھ‘ تائیوان کے دفاع کے لئے اپنی بحری افواج کو تیار کرنا‘ یہ اتحادی فوجی کمانڈروں کے لئے آسان نہیں ہوگا۔بدقسمتی سے‘ مغرب نے اِس خطے کے ساتھ مغربی ایشیا میں اپنی مہم جوئی کے نتائج سے زیادہ کچھ نہیں سیکھا۔ یہاں تک کہ روس اور یوکرائن کی جنگ نے مداخلت کے مغربی فلسفے کو بے نقاب کیا ہے کیونکہ یہ روسی فیڈریشن کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے اگرچہ یوکرینیوں نے اب تک بہادری سے لڑا ہے لیکن وہ اپنی زمین کا بیس فیصد حصہ کھو چکے ہیں اور اوڈیسا کی بندرگاہ بحیرہ اسود سے تقریباً کٹ چکے ہیں۔ اس جنگ میں یوکرین کی معیشت کو تقریباً ایک کھرب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور مغربی حمایت کے باوجود وہ روسی جارحیت کی لہر کو مؤثر طریقے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جیسا کہ روس کے بیشتر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ آخری یوکرائن کی بقا تک یوکرین کو مغرب کی طرف سے توپوں کے چارے کے طور پر استعمال کیا جائے گا.

اس بدقسمت فلسفے کو تائیوان میں بھی لاگو کیا جا رہا ہے۔ تائیوان کے لوگ یا تو اس بات پر منقسم ہیں کہ انہیں امریکہ کا فوجی تعاون چاہئے اور اِسے اس حد تک بڑھانا ہے کہ چین اور ون چائنا پالیسی پر اس کے مؤقف کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ قابل ذکر ہے کہ تائیوان میں نینسی پلوسی کے دورے کے خلاف چند مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ پلوسی کے دورے نے سوشل میڈیا پر معلوماتی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ دونوں اطراف سے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے ایک دوسرے پر حملہ کیا۔ مغربی سوشل میڈیا صارفین نے یہ کہہ کر چین کا مذاق اڑانے کی کوشش کی کہ چین بیان بازی کے باوجود نینسی پلوسی کے دورے کو نہیں روک سکا۔ چین میں بیسویں ’نیشنل پارٹی کانگریس‘ رواں سال اکتوبر میں ہونے والا ہے اور صدر شی جن پنگ تیسری مدت کے لئے صدر بننا چاہتے ہیں۔ اِس لئے پلوسی کے دورے کے خلاف چینی ردعمل شدید بھی ہو سکتا ہے۔ یہ جاننا بھی دلچسپ ہے کہ بحیرہئ جنوبی چین کے علاقے اور باقی دنیا کے ممالک کی طرف سے اِس پوری صورتحال کے بارے میں کس قسم کا ردعمل سامنے آتا ہے۔ روسی فیڈریشن نے پہلے ہی اِس حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کر رکھا ہے اور یہ فرض کر لیا ہے کہ تائیوان میں امریکی اقدام صورتحال کو بگاڑ دے گا۔ اگرچہ بھارتی سیاسی و عسکری قیادت نے کوئی رسمی مؤقف اختیار نہیں کیا تاہم ہندوستانی میڈیا میں مغربی جذبات کی بازگشت و عکاسی ملتی ہے اور یہ چین کا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان نے چین کا ساتھ دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ”ون چائنا پالیسی“ کی حمایت جاری رکھے گا۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ”پاکستان ون چائنا پالیسی کے لئے اپنے مضبوط عزم کا اعادہ کرتا ہے اور چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی مضبوطی سے حمایت کرتا ہے“ پاکستان کو آبنائے تائیوان کی ابھرتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش بھی ہے جس کے علاقائی امن و استحکام پر سنگین مضمرات ہو سکتے ہیں۔ روس یوکرین جنگ سے خوراک اور توانائی کے بحران پیدا ہوئے ہیں جبکہ دنیا پہلے ہی خوراک اور توانائی کے بحران سے گزر رہی ہے۔ اِس لئے وہ بحیرہ جنوبی چین کے انتہائی حساس علاقے میں ایک اور تنازع کا متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر حالات قابو سے باہر ہو گئے اور فوجی تصادم ہوا تو عالمی معیشت کو ناقابل برداشت جھٹکا لگے گا۔ امید کرتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کا قیام امن سے متعلق احساس اُن کی حکمت عملیوں پر غالب ہو گا اور امریکی تسلط پسندانہ رویہ دنیا کو راحت کی سانس لینے کے لئے نرم کیا جائے گا۔ (بشکریہ: ایکسپریس ٹربیون۔ تحریر: عدیلہ نورین۔ وقار کے قوروی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)