بروقت بحالی

اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تقریباً چار سال کے بعد‘ بہت سے اہم پروگراموں کو منظم طریقے سے ختم کر دیا گیا ہے اور اِس عمل کے بارے میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ آخرکار عقل غالب آ گئی ہے‘ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کا وسیع تجربہ رکھنے والے پروفیسر مختار کو ’ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا چیئرپرسن مقرر کیا گیا ہے‘ نئے چیئرپرسن کے سامنے ایک مشکل کام ہے اور وہ یہ کہ زیادہ تر جامعات (یونیورسٹیاں) مالی اور تعلیمی بحرانوں سے دوچار ہیں اور تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں اور انہیں دوبارہ فعالیت پر لانے کی مالی وسائل و انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے اور اگر اِن دو ضروریات کو فہرست کیا جائے تو پہلا بڑا چیلنج ”فنڈنگ“ ہوگی ہائر ایجوکیشن سیکٹر کیلئے آپریشنل بجٹ گزشتہ پانچ سالوں سے تقریباً پینسٹھ ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں جبکہ سالانہ مہنگائی پندرہ فیصد سے زائد ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر پچاس فیصد سے زیادہ کم ہو چکی ہے اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں بھی اضافے کے باعث حکومت کی جانب سے سرکاری شعبے کی یونیورسٹیوں کو فراہم کئے جانے والے وسائل بمشکل اِن جامعات کے 20فیصد اخراجات ہی پورے کر پاتے ہیں دوسری مشکل جامعات کے مالی اخراجات ہیں اور یہ ہماری یونیورسٹیوں کو درپیش دوسرا بڑا چیلنج ہے کہ ہمارے ہاں اہل اساتذہ کی کمی ہے‘ فی الوقت ایچ ای سی کو ’پی ایچ ڈی‘ کی سطح کے ہزاروں وظائف مختلف اسکالرشپ پروگرام دستیاب ہیں‘ جن میں نالج اکانومی ٹاسک فورس کا تیرہ ارب روپے کا منصوبہ بھی شامل ہے لیکن یہ سکالرشپ گنتی کے افراد ہی کو دیا جا سکا ہے۔ یونیورسٹیاں شدید مالی مجبوریوں کی وجہ سے مطلوبہ تعداد میں اہل فیکلٹی ممبران کو ملازمت نہیں دے پا رہیں اِس مسئلے کو حل کرنے کیلئے‘ ایچ ای سی جامعات میں پی ایچ ڈی کی سطح کے نئے فیکلٹی کی خدمات حاصل کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے اور اس میں شامل مالی اخراجات کا بوجھ طالب عملوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے‘ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو درپیش تیسرا اہم مسئلہ صنعتی اور زراعت کے شعبوں کے ساتھ مناسب روابط کا فقدان ہے‘اس مسئلے کو حال ہی میں ہری پور ہزارہ میں قائم پاک آسٹرین یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنس اینڈ انجینئرنگ نے بہترین انداز میں حل کیا ہے‘ جہاں طلبہ کیلئے انڈسٹری میں کل وقتی انٹرن کے طور پر پانچ سو سے سات سو گھنٹے تربیت حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے خاص طور پر گرمیوں کی تعطیلات کے دوران‘ طلبہ کو اپنی چار سالہ تعلیمی مدت کے دوران لازماً تربیت (انٹرن شپ) مکمل کرنا ہوتی ہے ایچ ای سی بھی اس تربیتی ماڈل کو اپنا سکتا ہے اور اسے تمام یونیورسٹیوں کیلئے کوالٹی ایشورنس کے عمل کا ایک لازمی حصہ بنا سکتا ہے چوتھا مسئلہ انڈرگریجویٹ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہے اگر تمام انڈر گریجویٹ (اور پوسٹ گریجویٹ) طلبہ کو بین الاقوامی بڑے پیمانے کے مطابق آن لائن کورسز کروائے جائیں اور اِس جکمت عملی کے تحت کم از کم ستر فیصد تدرسی مواد استعمال کرنے کو لازمی قرار دیا جائے تو اِس سے بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ ہم نے آن لائن کورسز کا ایک مربوط ورژن بنایا ہے جسے اس مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے‘ یہ lej4learning.com.pk کے ذریعے مفت دستیاب ہے اور اس میں ایم آئی ٹی اوپن کورس وئیر‘ خان اکیڈمی کورسز کے ساتھ ہزاروں دیگر بہترین لیکچر مواد بھی شامل ہیں‘ جدت طرازی اور کاروبار کو فروغ دینا یونیورسٹیوں کیلئے ایک اور اہم چیلنج ہے۔ نئے سٹارٹ اپس کے قیام میں معاونت کیلئے باسہولت ٹیکنالوجی پارکس کے قیام کی حوصلہ افزائی وقت کی ضرورت ہے اگر حکومت ان صنعتوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینا شروع کر دے جو پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں میں ایسے ٹیکنالوجی پارکس کے اندر اپنے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹرز قائم کرتی ہیں تو اس سے پرائیویٹ سیکٹر ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے فروغ کو بہت زیادہ فروغ مل سکتا ہے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کیلئے‘ ہماری جامعات ایک ایسا نظام متعارف کروا سکتی ہیں جس کے تحت ہر ایک طالب علم کیلئے مقامی پی ایچ ڈی سپروائزر کوئی نامور غیر ملکی اکیڈمک کو شریک سپروائزر کے طور پر رکھا جائے؛ اس سے یونیورسٹیوں کو کافی فائدہ ہوگا کیونکہ یہ ترقی یافتہ ممالک میں اچھے غیر ملکی ماہرین تعلیم کے ساتھ تعاون کے مضبوط نیٹ ورکس بنائے گا۔ مشترکہ نگرانی میں تدریسی منصوبوں اور مستقبل کی سمتوں پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے پندرہ روزہ ’زوم‘ تعاملات کی صورت ’آن لائن وسائل‘ سے مدد لی جا سکتی ہے‘ اس پر کوئی لاگت بھی نہیں آئیگی اور معیار کو بہتر بنانے میں بہت زیادہ فائدہ ہوگا فی الوقت زیادہ تر یونیورسٹیوں میں اعلیٰ معیار کی تحقیق کیلئے مناسب سہولیات کا فقدان ہے تاہم ملک میں پھیلے چند اداروں میں ایسی سہولیات دستیاب ہیں اس مشکل سے نمٹنے کیلئے ہم نے دوہزارچار میں ایک نیا پروگرام متعارف کرایا اس میں یونیورسٹیوں کے محققین کو اپنے نمونے کا تجزیہ کسی بھی قومی ادارے سے کروانے کی اجازت شامل ہے یہ پروگرام بہت بڑی کامیابی رہی اور اس نے یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے اعلیٰ معیار کی بین الاقوامی اشاعتوں کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن پھر اس پروگرام کو ختم کر دیا گیا اور اب یہ دوبارہ بحال ہونے کے مراحل میں ہے قیام پاکستان کے 75سال گزرنے کے بعد‘ پاکستان کمزور معیشت‘ کم شرح خواندگی قریب 2 کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہونا ناقص تعلیمی نظام کی نشاندہی کر رہا ہے‘ ورلڈ جوڈیشل پروجیکٹ رول آف لاء انڈیکس 2021ء کے مطابق انصاف کی فراہمی کے سلسلے میں 139 ممالک کی فہرست میں پاکستان 130ویں نمبر پر ہے دنیا میں وقار کے ساتھ آگے بڑھنے کیلئے ہمیں ایک مضبوط علمی معیشت بنانا ہوگی‘ اس کیلئے ہمیں ہائی ٹیکنالوجی (اور ہائی ویلیو ایڈیڈ) اشیا جیسا کہ الیکٹرانکس‘ کمپیوٹرز‘ انجینئرنگ کا سازوسامان‘ فارماسیوٹیکلز‘ آٹوموبائل‘ معدنیات‘ آئی ٹی مصنوعات وغیرہ تیار کرنا اور انہیں برآمد کرنے کے قابل ہونا چاہئے لیکن اس ہدف کے حصول کیلئے ہمیں تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی اور اِسی سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے نوجوانوں کو پانچویں صنعتی انقلاب کیلئے تیار کرنا ہوگا اگر پاکستان کو دنیا میں جاری ترقی کے شانہ بشانہ آگے بڑھنا ہے تو اِسے واضح طور پر سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے نظرثانی شدہ حکمت ِعملیاں وضع کرنا ہوں گی تعلیم و جدیدیت کے بغیر صنعتی انقلاب برپا نہیں کیا جا سکے گا۔ (مضمون نگار سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق بانی چیئرمین ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)