میثاق معیشت: نکتہئ نظر

پاکستان کا بیرونی قرضہ تقریباً ’ساٹھ کھرب روپے‘ تک پہنچ گیا ہے جس سے مالی اور اقتصادی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے‘ داخلی مالیاتی محاذ پر بھی صورتحال بہتر نہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی قسط بھی ہمارے مسائل کا حل ثابت نہیں ہوگی اور ناقابل برداشت قرضوں کے انبار میں مزید اضافے کا باعث بنے گی‘ جسکی ادائیگی میں برسوں لگ سکتے ہیں‘ اگر ملک موجودہ رفتار سے قرض لینا جاری رکھتا ہے‘ تو ہو سکتا ہے کہ وہ خود کو سنگین صورت حال میں مبتلا کر دے جیسا کہ اس سے قبل لاطینی امریکہ کے کچھ ممالک نے کیا تھا‘ جنہوں نے اربوں ڈالر کے قرضے لئے اور اپنے وطن کو مالی بحران کی طرف دھکیل دیا۔ گرتی ہوئی برآمدات اور بڑھتی ہوئی درآمدات سے ملک کو مزید قرض لینا پڑے گا معیشت میں فوری بہتری کی کوئی امید نہیں‘ کیونکہ حکمرانوں نے 1980ء کی دہائی سے ’آئی ایم ایف‘ اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر عمل کرتے ہوئے توانائی کی قیمتوں اور شرح سود میں اضافہ کیا ہے‘ فی الحال پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے کم از کم سات ارب ڈالر سالانہ اور سالانہ مالیاتی خسارے پر قابو پانے کیلئے مزید سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آنیوالے برسوں میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے کچھ اندازوں کے مطابق پاکستان کا بیرونی قرضہ اگلی دو دہائیوں میں 400 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے‘ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اقتصادی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں سے کہاہے کہ وہ چارٹر آف اکانومی پر متفق و متحد ہو جائیں‘وزیر اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ ’چارٹر آف اکانومی‘ سے اُن کا مطلب و مقصد کیا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت کی بحالی کیلئے کوئی خاص قدم اٹھایا جائے؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر کوئی قابل عمل حل یا اقتصادی عارضوں کا علاج تلاش کریں جس سے تمام معاشی خرابیاں دور کی جا سکیں؟ کیا وہ ایسا معاشی ماڈل دیکھنا چاہتے ہیں جس کی تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت ہو اور جو ملک کیلئے سود مند ہو؟ اگر ایسا ہے تو معیشت کے احیا کے سوال پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب معاشی پالیسیوں کی بات آتی ہے تو تمام سیاسی جماعتیں اسی معاشی ماڈل کی پیروی کرنا چاہتی ہیں جس پر 1980ء کی دہائی میں بھروسہ کیا گیا تھا‘ تمام سیاستدان لبرلائزیشن‘ ڈی ریگولیشن اور نجکاری کی پالیسیوں کے حامی ہیں۔ کیا ہمارے لیڈروں نے کبھی نجی سرمائے کے خلاف بات کی ہے؟ کیا ہمارے سیاستدان عوامی سطح پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس بات کے ثبوت کے باوجود کہ وہ سرکاری اداروں کی نجکاری نہیں کرنا چاہتے کہ اس طرح کی نجکاری نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے کے علاوہ ملک میں صنعتی نظام کو ختم کرنے اور قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا ہے؟کیا انہوں نے کبھی ان مزدوروں کی عیادت کی جو نجکاری کے عمل میں اپنی ملازمتیں کھو بیٹھے ہیں‘ جس سے ان کے خاندان مالی بحران میں ڈوب گئے ہیں‘اگر وزیراعظم اور حکمران اتحاد کے ارکان واقعی چارٹر آف اکانومی چاہتے ہیں تو انہیں پہلے یہ بتانا چاہئے کہ اِن کی معاشی پالیسیاں عمران خان سے کس طرح مختلف ہوں گی‘ مفتاح اسماعیل کا پرو لبرل ایجنڈا شوکت ترین‘ حفیظ شیخ یا حتیٰ کہ معین قریشی اور شوکت عزیز کی امیر نواز اور مارکیٹ پر مبنی پالیسیوں سے کس طرح مختلف ہے؟ تحریک انصاف حکومت نے عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا اور اب شہباز حکومت یہ بوجھ بڑھا رہی ہے‘ پی ٹی آئی نے سرکاری اداروں کی نجکاری کی کوشش کی اور موجودہ حکومت بھی سرکاری صنعتوں اور کاروباری اداروں کو نیلام کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے‘ وزیر اعظم اور ان کی اقتصادی ٹیم کو اس بزنس سکول فلسفے سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا جو کہتا ہے کہ ریاستیں کاروبار نہیں کر سکتیں۔ انہیں ان ممالک کی معیشتوں کا مطالعہ کرنا چاہئے جنہوں نے منصوبہ بندی کی ہے اور معیشتوں کو کمانڈ کیا ہے‘ مثال کے طور پر سوویت یونین نے دوسری عالمی جنگ کے دوران تقریباً دو کروڑ ستر لاکھ افراد کو کھو دیا‘لیکن اس سب کے باوجود، روس 1956ء میں دنیا کا دوسرا بہترین صنعتی ملک تھا‘چین نے بھی ایک منصوبہ بند اقتصادی ماڈل کے تحت غیر معمولی اقتصادی ترقی حاصل کی جس میں ماؤ کے زمانے میں اقتصادی ترقی اوسطاً پانچ فیصد تک پہنچ گئی‘ وزیراعظم پاکستان اور ان کے ماہرین کی ٹیم کو بھی عوامی اداروں کے نقصانات کے اصل اسباب کی وضاحت کرنی چاہئے‘کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 1980ء کی دہائی میں لبرلائزیشن کی پالیسیوں کے بعد تمام ریاستی اداروں کو نقصان اٹھانا پڑا؟ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز (پی آئی اے) جس نے دو باوقار ائر لائنز بنانے میں مدد کی وہ زیادہ عملے کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے بلکہ اپنے منافع بخش روٹس کی غیر ملکی کمپنی کو فروخت کرنے پر مجبور ہے‘اِسی طرح پاکستان ریلویز بھی خسارے کا شکار ہے کیونکہ اس کے امور ایک لاجسٹک کمپنی کو سونپ دیئے گئے ہیں‘ جس نے ریلوے کے مسائل و خسارے میں اضافہ کیا ہے‘ پاکستان اسٹیل ملز کی پیداوار رک گئی ہے کیونکہ اس کے بیس لاکھ ٹن اسٹیل کی پیداوار کے توسیعی پروگرام پر بروقت عمل درآمد نہیں کیا جا سکا‘ اگر چارٹر آف اکانومی وضع کرنا ہے تو مفادات کے ٹکراؤ کا مسئلہ حل ہونا چاہئے‘ اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے کہ انتہائی کم رقم کیلئے قومی اثاثوں کو نجی اداروں کے حوالے کیوں کیا جا رہا ہے اور بجلی کے نجی پیداواری اداروں (آئی پی پیز) پر ہر حکومت اربوں روپے کیوں نچھاور کرتی ہے؟ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالستار۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)