معیار زندگی‘ بودوباش

سوال یہ ہے کہ پاکستان میں عام آدمی کا معیار زندگی (بودوباش) کیا ہے اور وہ کن حالات میں زندگی گزار رہا ہے؟ ادارہ شماریات پاکستان نے سوشل لیونگ سٹینڈرڈ میجرمنٹ سروے (پی ایس ایل ایم) 2019-20ء میں اِس بارے چشم کشا انکشافات کئے ہیں جن کے ساتھ ثبوت کے طور پر گھرانوں کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں۔سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ایک گھر محض چاردیواری (پناہ گاہ) سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ ہمارے معیارِ زندگی کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ پچیس فیصد گھرانے ایک کمرے کی رہائش گاہ میں رہتے ہیں۔ ایک امید افزا بات یہ ہے کہ یہ تناسب سال 2014-15ء کی نسبت کم ہوا ہے‘ تب یہ تناسب اٹھائیس فیصد تھا۔ مزید یہ کہ اکثر گھرانے (69فیصد) دو سے چار کمروں کے گھروں میں رہتے ہیں‘ یہ تناسب ماضی میں 67فیصد تھا۔ ایسے گھرانے جن کی رہائش پانچ یا زائد کمروں پر مشتمل ہے ان کا تناسب چھ فیصد ہے۔ ایک کمرے میں مقیم گھرانوں کا سب سے زیادہ تناسب (78فیصد) ضلع شہید بے نظیر آباد میں ہے۔ اس حوالے سے مجموعی طور پر بھی سندھ کی صورتحال سب سے بُری ہے۔ 

یہاں ایک کمرے کے گھروں میں رہنے والے خاندانوں کا تناسب 35.6فیصد ہے‘ اس کے بعد بلوچستان (23.3فیصد) پھر پنجاب (22.6فیصد) اور پھر خیبر پختونخوا (16.3فیصد) کا نمبر آتا ہے۔ پاکستان میں نصف کے قریب گھرانوں میں صابن سے ہاتھ دھونے کی کوئی مخصوص جگہ نہیں ہوتی جبکہ 54فیصد گھرانوں میں یہ سہولت موجود ہے۔ 10فیصد گھرانوں میں ٹائلٹ نہیں ہیں۔ 83فیصد گھرانوں میں فلش ٹوائلٹ ہیں جبکہ 7فیصد میں نان فلش ٹوائلٹ ہیں۔ بلوچستان میں 17فیصد گھرانوں میں ٹوائلٹ نہیں اور خیبر پختونخوا میں یہ تناسب گیارہ فیصد جبکہ سندھ میں 9اور پنجاب میں 9فیصد ہے۔ ملک میں 73فیصد گھرانے کسی سیوریج نظام سے نہیں جڑے اور باقاعدہ سیوریج نظام سے منسلک گھرانوں کا تناسب صرف 27فیصد ہے۔ پانی کی نکاسی کے حوالے سے بات کی جائے تو 36فیصد گھرانے کسی نظام سے منسلک نہیں۔ 35فیصد گھرانے کھلی نالیوں سے منسلک ہیں‘ 23 فیصد زیرِ زمین نالوں سے منسلک ہیں جبکہ صرف 6 فیصد گھرانے ڈھکے ہوئے نالوں سے منسلک ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی جانب سے صرف 18فیصد گھرانوں سے ہی کچرا اٹھایا جاتا ہے۔ اکثر (82فیصد) گھرانے اپنا کچرا کھلی جگہوں‘ سڑکوں‘ گلیوں یا عوامی کوڑے دانوں میں ڈالتے ہیں۔ ملک میں چھ فیصد سے زائد گھرانے (3کروڑ 50لاکھ) کچرا سڑک پر پھینکتے ہیں۔

 سندھ میں یہ تناسب سب سے زیادہ یعنی پندرہ فیصد ہے۔ ملک میں ٹی آئرن کی چھتوں والے گھروں کی اکثریت ہے اور ان کا تناسب 39فیصد ہے۔ اس کے بعد آر سی سی اور آر بی سی (33فیصد)‘ لکڑی اور بانس (23فیصد) اور پھر شیٹ یا دیگر اشیا سے بنی چھتوں (5فیصد) کا نمبر آتا ہے۔ لکڑی اور بانس سے بنی چھتوں کا تناسب سب سے زیادہ (28.7فیصد) سندھ میں ہے اور ضلع تھرپارکر میں یہ تناسب 92.2فیصد ہے۔ اکثر گھروں (80فیصد) کی دیواریں اینٹوں کی بنی ہیں جبکہ 15فیصد مکانات کی دیواریں مٹی کی اور 5فیصد کی لکڑی اور دیگر اشیا کی بنی ہوئی ہیں۔اکثر گھرانے پینے کے پانی کو پمپ کے ذریعے حاصل کرتے ہیں‘ ان میں سے تیس فیصد موٹر پمپ اور تیئس فیصد ہینڈ پمپ استعمال کرتے ہیں۔ صرف بائیس فیصد گھرانوں میں براہ راست نلکے میں پانی آتا ہے اس کے علاوہ 10فیصد گھرانوں کا انحصار فلٹر پلانٹس‘ 4فیصد کا ٹینکروں‘ تین فیصد کا کنوؤں اور 2فیصد کا انحصار دریاؤں اور تالابوں پر ہے۔ عام خیال ہے کہ ترقی کے ساتھ ساتھ ہینڈ پمپ کا استعمال کم سے کم ہوتا جاتا ہے لیکن سندھ میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں سال2014-15ء میں ہینڈ پمپ کا استعمال 34فیصد تھا جو 2019-20ء میں بڑھ کر چھتیس فیصد ہوگیا۔

 اس کے علاوہ پینے کے پانی کے ذرائع بھی اکتالیس فیصد سے کم ہوکر پینتیس فیصد ہوگئے ہیں۔ بہرحال ایک مثبت بات یہ ہے کہ پانی کے حصول کے تمام ذرائع کو ’اپمروؤڈ سورس آف ڈرنکنگ واٹر‘ قرار دیا گیا ہے اور چورانوے فیصد گھرانوں کو ان تک رسائی حاصل ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ’اپمروؤڈ سورس آف ڈرنکنگ واٹر‘ کا یہ مطلب نہیں کہ یہ پانی پینے کے لئے محفوظ ہے لیکن اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ یہ تالاب سے پانی پینے کی نسبت کہیں بہتر ہے۔ پانی کے معیار‘ صفائی ستھرائی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ بات حیران کن نہیں کہ ہمارا ملک صحت کے اشارئیوں میں بہت نیچے نظر آتا ہے۔ ہمارے ملک میں اوسط عمر 67برس ہے جو جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے کم ہے۔ اس حوالے سے دنیا کے 194ممالک میں سے ہمارا نمبر 148واں ہے۔ اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ نومولود بچوں کی شرح اموات ہے جو 53فیصد ہے۔ بھارت میں یہ شرح 39‘ بنگلہ دیش میں 32‘ ترکی میں 18 اور ایران میں 16فیصد ہے۔  اگر غذائی تحفظ کی بات کی جائے تو تمام گھرانے خود کو غذائی طور پر محفوظ نہیں سمجھتے۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر (مارچ 2020ء تا جولائی 2020ء) کے دوران تقریباً چالیس فیصد گھرانے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوئے کیونکہ انہیں معیاری اور صحت بخش غذا تک خاطر خواہ رسائی حاصل نہیں تھی۔

 مالی سال 2019-20ء کے پی ایس ایل ایم میں بتایا گیا کہ سولہ فیصد گھرانے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور 84فیصد کو غذائی تحفظ حاصل ہے۔ غذائی عدم تحفظ کا شکار گھرانوں میں دو فیصد گھرانے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں جبکہ چودہ فیصد گھرانے کم یا معتدل عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ شدید غذائی عدم تحفظ سے مراد خوراک تک رسائی نہ ہونے کے باعث شدید بھوک اور غربت کا سامنا کرنا ہے۔ کم یا معتدل غذائی عدم تحفظ سے مراد کم معیار یا مقدار کی غذا تک رسائی ہونا ہے‘ یہ غذا صحت مند زندگی کے لئے موزوں نہیں ہوتی۔مالی سال 2021-22ء میں شرح نمو بڑھنے کے باعث امید ہے کہ مستقبل کے پی ایس ایل ایم میں غذائی عدم تحفظ میں کمی دیکھنے کو ملے گی۔ پاکستان کی تعلیمی کامیابیاں ہمارے معیارِ زندگی کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔ اس سروے میں ہماری خواندگی کی شرح ساٹھ فیصد پائی گئی۔ یہ افغانستان کے علاوہ ہمارے تمام پڑوسی ممالک کی نسبت کم ہے۔

 افغانستان میں شرح خواندگی 37فیصد بھارت میں 74فیصد‘ بنگلہ دیش میں 75فیصد‘ ایران میں 86فیصد اور چین میں 97فیصد ہے۔ کم شرح خواندگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے 32فیصد بچے (پانچ سے سولہ سال کی عمر کے) سکول نہیں جاتے۔ یہ شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں 47فیصد جبکہ سندھ میں 44فیصد‘ خیبر پختونخوا میں 30فیصد اور پنجاب 24فیصد ہے۔ ہمیں ہر ممکن حد تک اپنے گھروں میں صفائی ستھرائی اور حفظانِ صحت کی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا۔ ایک عام پاکستانی کو چاہئے کہ گھروں کے باہر کچرا نہ پھینکیں۔ ہمیں چاہئے اپنے بچوں کو سکول بھیجیں اور جتنا ممکن ہو انہیں تعلیم دلوائیں اور اگر یہ سبھی کام تسلی بخش طریقے (مثالی طور پر) کر لئے گئے تو پاکستان میں بھی معیار زندگی بہتر ہو جائے گا؟ (مضمون نگار سٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب گورنر رہ چکے ہیں۔ بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ریاض ریاض الدین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)