جانب ِاستحکام سفر

2 اگست کے بعد سے‘ تین چیزیں ہوئیں ہیں۔ روپے کی قدر 240روپے سے بڑھ کر 210 ڈالر ہوئی ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا KSE-100 انڈیکس 41 ہزار پوائنٹس سے بڑھ کر 44 ہزار پوائنٹس پر آگیا ہے اور پانچ سالہ تھرڈ پاکستان انٹرنیشنل سکوک بانڈ پچاس فیصد سے کم ہوکر اکیس فیصد ہو چکی ہے۔ سوال: اس کا کیا مطلب ہے؟ جواب: پاکستان کے اندر اور باہر‘ اجتماعی سرمایہ کاروں کی حکمت کا خیال ہے کہ مستقبلپاکستان کے کاروبار کے لئے اچھا ہوگا شاید سرمایہ کاروں کے خیال میں پاکستان سیاسی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ کہ ’کاروباری طبقے کے لئے یہ اچھا شگون (موقع) ہے۔ اقتصادی محاذ پر حکومتی حکمت عملیاں کامیاب رہیں اور ڈالر کے مقابلے روپیہ قدرے مستحکم ہوا ہے۔ خبر یہ ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ذریعے بھیجے گئے لیٹر آف انٹینٹ پر دستخط کر دیئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے 1.17 ارب ڈالر اگست کے آخری ہفتے میں ملنے کی توقع ہے۔ جس کے بعد مزید امداد ملے گی۔ بلومبرگ کے مطابق سعودی عرب پاکستان کو تین بلین ڈالر کے ڈیپازٹ کی تجدید کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

 وزیراعظم نے جاپانی سرمایہ کاروں سے ملاقات کی ہے جو ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر غور کر رہے ہیں۔ پاکستان اور ترکی نے ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط کئے ہیں اور سعودی عرب اپنا 2.8 ارب ڈالر کا آئی ایم ایف کوٹہ بھی پاکستان منتقل کرنے پر غور کر رہا ہے۔ حکومت کی کارکردگی خالصتاً معاشی محاذ پر بھی قابل ذکر ہے تاہم ہمیں ’خوشخبری‘ اور ’معاشی حقیقت‘ کے درمیان فرق کرنا چاہئے۔ معاشی حقیقت یہ ہے کہ سب سے حالیہ حساس قیمت انڈیکس جس میں اکیاون ضروری اشیائے خوردونوش شامل ہیں تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 37.69فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ دال مسور 111فیصد‘ ڈیزل 109فیصد‘ پیاز 90فیصد‘ کوکنگ آئل 73فیصد‘ سرسوں کا تیل 72فیصد اور سبزی گھی وغیرہ کی قیمت میں 70فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری معاشی حقیقت یہ ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر محض 7.8 ارب ڈالر یا درآمدی چار ہفتوں کی ضروریات کے سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ ایک عام پاکستانی کے لئے برسرزمین حقائق انتہائی تکلیف دہ ہیں اور اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہیں۔

 سٹیٹ بینک نے ’کمپریسڈ امپورٹ‘ کے ذریعے روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کی کوشش اور اِس کا دفاع کیا ہے۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کی یہ ’مداخلت‘ پائیدار بھی ہے یا نہیں؟ پاکستان کے معاملے میں جب درآمدات کو ’کمپریسڈ (کم)‘ کیا جاتا ہے تو دو چیزیں ہوتی ہیں ایک ہماری برآمدات کم ہوتی ہیں اور دوسرا درآمد سے حاصل ہونے والے ٹیکس و دیگر حکومتی ڈیوٹیز سے حکومت کو جو آمدن (ریونیو) مل رہا ہوتا ہے اُس کی وصولی (کلیکشن) کم ہو جاتی ہے ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی ٹیکسوں یا ڈیوٹیز سے حاصل ہونے والی کل آمدنی کا 55فیصد درآمد سے اکٹھا ہوتا ہے۔

 واضح طور پر‘ سٹیٹ بینک کی مداخلت مارکیٹ و معیشت کے فوری استحکام کے لئے پائیدار نہیں ہے۔ پاکستان کو نئے قرضے‘ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو یہ ’اچھی خبر‘ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ قرض کی سطح میں اضافہ کسی بھی صورت فائدہ مند نہیں اور نہ ہی قرضوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پائیدار ہوتی ہے اور ہمیں فوری طور پر ’مالیاتی استحکام کے منصوبے‘ اور ’قرض میں کمی کے منصوبے‘ کی ضرورت ہے۔ پاکستان معاشی و اقتصادی لحاظ سے جس مقام پر کھڑا وہاں اِسے نجکاری اور ڈی ریگولیشن کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)