جنگل کی آگ: ناقابل تلافی نقصانات

کوہ سلیمان خطے کے شرغلئی علاقے کے رہائشی اپنی بدقسمتی پر افسوس کر رہے ہیں کیونکہ اِن کی آمدنی کا واحد ذریعہ ’چلغوزے کے درخت‘ تھے لیکن سب کچھ جنگل میں لگنے والی آگ کی نذر ہو گیا اور برسوں کی محنت اور مستقبل کی آمدن جل کر خاکستر ہوتے ہوئے دیکھنے والوں کو ناقابل تلافی نقصانات ہوئے ہیں۔ جب مقامی افراد کوہ سلیمان پر لگنے والی آگ سے مقابلہ کررہے تھے تو ملک کے دیگر حصے اِس صورتحال سے بے خبر تھے۔ 9 مئی کے روز ’فیس بک‘ پر ایک ویڈیو گردش کرنے لگی جس میں کوہ سلیمان کی سب سے بلند چوٹی پر لگنے والی تباہ کن آگ کو دکھایا گیا تھا۔ تیز ہواؤں کی وجہ سے یہ آگ تیزی سے پھیل گئی۔ ہوا کے دوش پر بھڑکتے شعلے بہت تیزی سے پھیلتے ہوئے پہاڑ کی ڈھلانوں میں لگے چلغوزے کے اونچے درختوں کو تباہ کرتے گئے۔ 16مئی کو سمازئی اور شرغلئی کے علاقوں میں بھی آگ پھیلنا شروع ہوگئی اور زرغون زوار تک پہنچ گئی۔ مقامی افراد جن کی اکثریت چلغوزے کے جنگلات سے براہ راست مستفید ہوتی تھی اس پوری صورتحال میں بے یار و مددگار تھے۔ کوہ سلیمان کے قریب سر لکی گاؤں کے تین افراد آگ بجھانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جھلس کر ہلاک ہوئے۔ ان کی لاشیں بھی ناقابلِ شناخت تھیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومت نے اس آگ کا نوٹس لیتے ہوئے امدادی کاروائیوں کا آغاز کیا۔ مقامی رضاکاروں کے ساتھ ساتھ فرنٹیئر کور اور لیویز کے اہلکاروں اور ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے کئی روز تک آگ کو بجھانے کی جدوجہد کی۔ آگ بجھانے والے کیمیائی مادے اور چار سو فائر بالز کے استعمال کے بعد بھی یہ آگ نہ بجھی تو آرمی ہیلی کاپٹروں کی بھی مدد لی گئی لیکن یہ کوشش بھی بے سود ثابت ہوئی۔ آگ کے چودہویں روز ایران سے آگ بجھانے والا جہاز (ایلوشن 76) آیا‘ جس نے آگ کو بجھایا اور اسے مزید پھیلنے سے روکا۔ اس کے نتیجے میں جنگل مزید تباہی سے بچ گیا۔ اسی ایرانی جہاز نے حال ہی میں ترکی‘ آرمینیا اور جارجیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ بھی بجھائی تھی۔ فضا سے پانی ڈالنے کے علاؤہ فائر لائن اور خندق کھودنے جیسے روایتی طریقے بھی آگ کو محدود رکھنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ یہ تمام تر کاوشیں رنگ لائیں لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور بہت زیادہ نقصان ہوچکا تھا۔ کوہ سلیمان پر لگنے والی آگ ایک قدرتی چیز ہوسکتی ہے لیکن اس کی وجوہات کا اب تک تعین نہیں ہوسکا۔ بلوچستان کے سیکرٹری جنگلات و جنگلی حیات دوستانی جمالدینی کا کہنا ہے کہ آگ کوہ سلیمان کے نزدیک موسٰی خیل زمری میں آسمانی بجلی گرنے کے باعث شروع ہوئی۔ آگ کی اصل وجہ کی کھوج لگانی چاہئے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات سے بچا جاسکے۔ ایک اندازے کے مطابق مذکورہ آگ کے نتیجے میں کم از کم ایک تہائی جنگل متاثر ہوا ہے۔ پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹماسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کی جانب کی جانے والی ابتدائی جانچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تقریباً پندرہ دنوں تک تیزی سے پھیلنے والی آگ کے نتیجے میں چلغوزے اور زیتون کے لگ بھگ 19لاکھ درخت جل گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس نقصان کا ازالہ ہونے میں 100سال کا وقت لگے گا! انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) پاکستان کی سروے رپورٹ کے مطابق مذکورہ آگ کے نتیجے میں 1542ہیکٹرز پر محیط مقامی افراد کے زیرِ ملکیت جنگل میں چلغوزے کے 8 لاکھ 40ہزار 50 درخت متاثر ہوئے اور آگ سے تقریباً 4 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔کوہ سلیمان پہاڑی سلسلہ خوبصورت اور محسور کن مناظر سے مالا مال ہے۔ ساتھ ہی یہ اونچائی پر واقع دنیا کے سب سے بڑے چلغوزے کے جنگلات کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں مقامی چلغوزے کے علاوہ نشتر کے درخت اور نایاب جنگلی جانور بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ منفرد جنگل یہاں کی 90فیصد مقامی آبادی کے روزگار کا بھی ذریعہ ہے اور یہاں طرح طرح کے مقامی پھول پودے بھی موجود ہیں۔ پاکستان دنیا میں چلغوزہ پیدا کرنے والے سرفہرست پانچ ممالک میں سے ایک ہے اور بعض اندازوں کے مطابق خشک میوہ جات کی عالمی طلب کا پندرہ فیصد پاکستان پورا کرتا ہے۔ ملک میں چلغوزے کی کْل پیداوار کا تقریباً 74فیصد اِسی کوہ سلیمان نامی پہاڑی سلسلے سے حاصل ہوتا ہے۔ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس علاقے میں چلغوزے کے جنگلات 26ہزار ہیکٹر (ایک ہیکٹر میں تقریباً 970درخت ہوتے ہیں) پر پھیلے ہیں۔ ان جنگلات سے سالانہ تقریباً 6لاکھ 75ہزار کلوگرام (675میٹرک ٹن) چلغوزہ حاصل ہوتا ہے اور چلغوزے کے ہر درخت کی مالیت سالانہ پچیس سے پینتیس ہزار ہوتی ہے۔چلغوزے کے درخت صرف درخت ہی نہیں بلکہ مقامی افراد کا ذریعہ معاش بھی ہیں۔ چلغوزے کا درخت عموماً تیس سال کی عمر میں پھل دینا شروع کرتا ہے۔ ان جنگلات میں دو سو سال پرانے درخت بھی موجود ہیں لیکن اکثر درخت درمیانی یا کم عمر کے ہیں۔ ان درختوں کو دوبارہ لگانے اور انہیں پھل دینے کی عمر تک لانے میں کئی دہائیاں لگ جائیں گی۔ چلغوزے کی توڑائی کا سیزن ستمبر‘ اکتوبر میں شروع ہوتا ہے۔ درختوں پر سے پائن کونز کو توڑنے کے بعد اونٹوں پر لاد کر پہاڑوں سے نیچے لے جایا جاتا ہے۔ اس کو روایتی طریقے سے پراسیس کرنے کے بعد چلغوزے کو ژوب کے بازار بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ ڈیرہ اسمٰعیل خان‘ بنوں‘ کوئٹہ‘ لاہور‘ راولپنڈی اور کراچی بھیجا جاتا ہے۔ چلغوزے پر معاشی انحصار کرنے والی مقامی آبادی فکر مند ہے جبکہ آگ سے نہ صرف مقامی افراد بلکہ تاجروں اور پورے خطے پر منفی اثر پڑا ہے۔ آگ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے بین الاقوامی برادری اور وفاقی حکومت کو قلیل اور طویل مدتی جامع منصوبہ بنانا چاہئیں اور ٹھوس عملی اقدامات بھی ضروری ہیں۔ متاثرہ افراد کو دوبارہ جنگلات سے روزگار حاصل کرنے تک مالی امداد دی جائے یا اُنہیں روزگار کے متبادل مواقع فراہم کئے جائیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے چلغوزے کی تجارت کرنے والوں کی بحالی وقت کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رفیع اللہ مندوخیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)