ترقی: نظرانداز باہمی تعلق

مضبوط مقامی حکومت (Local Government) پائیدار صنعت کاری کے لئے اہم ہے‘ جمہوریت کی مضبوطی‘ طرزحکمرانی کے معیار کی بہتری اور سماجی خدمات کی فراہمی میں تبدیلی جیسا کردار مقامی حکومت ادا کرتی ہے لیکن پاکستان میں متحرک لوکل باڈیز ڈھانچے کو ابھی تک نہ تو پوری طرح سمجھا گیا اور نہ ہی اس سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا گیا ہے لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں میں زیر بحث متعدد کاروباری یا ترقیاتی ایجنڈوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے مؤثر مقامی حکومت کے قیام کو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں بھی شامل کیا گیا اور صرف ایک نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے دیگر ترقیاتی اہداف میں بھی مقامی حکومتوں کو کہیں نہ کہیں شامل کیا گیا ہے۔ جامع‘ پائیدار صنعت کاری‘ فروغ اور جدت‘SDG کا حصہ ہیں جس کے تحت پائیدار شہر اور کمیونٹیز بنائی جاتی ہیں اور اِس ہدف کا حصول متحرک مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ سال 1960ء کی دہائی میں جنرل ایوب خان سے لے کر 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیا الحق اور سال 2000ء کی دہائی میں جنرل مشرف تک کے تمام ادوار بلدیاتی اداروں کی سرپرستی کی گئی اور یہی پاکستان میں بلدیاتی اداروں کا سنہرا دور رہا۔

 بلدیاتی نظام سے انحراف کرتے ہوئے پاکستان میں صنعت کاری کی گئی جو انسانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کی صنعتی بنیاد رکھنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے کیونکہ اِس میں حسب ضرورت وسعت کی بجائے تنگی پائی جاتی ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ صنعتیں آہستہ آہستہ سکڑ رہی ہیں۔ پاکستان اکنامک سروے سے حاصل کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ مالی سال 2022ء میں کم ہو کر 12.4فیصد رہ گیا ہے جو مالی سال 2018ء میں 14فیصد تھا۔ سابق سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین پالیسی ایڈوائزری بورڈ‘ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) یونس ڈھاگہ کے بقول متحرک مقامی حکومتوں اور صنعتی ترقی کے درمیان فعال مثبت تعلق متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے ”میکنگ اکنامک ہبس تھرو: سندھ میں مالیاتی اور انتظامی منتقلی کا معاملہ“ نامی ایک تحقیق کا حوالہ دیا جو اقتصادی تحقیقی ادارے‘ سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر کا مشترکہ مطالعہ ہے۔ 

مذکورہ رپورٹ پہلی مرتبہ اس طرح کی تفصیلی و منظم کوشش ہے جس میں برسرزمین صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے اور تاریخی پس منظر کا سراغ بھی لگایا گیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ اِس سلسلے میں ہوئی پیشرفت یا اس کی کمی کا جائزہ بھی لینے کے علاؤہ موجودہ قوانین کا تنقیدی تجزیہ بھی کرتی ہے اور اِس سلسلے میں پائی جانے والی کمی بیشیوں (خلأ) کی نشاندہی کرتی ہے۔ حکومت سندھ اور حکومت کے لئے گائیڈ لائنز کے ساتھ اصلاحات کی سفارشات کرتی ہے۔ وفاقی حکومت پائیدار صنعتی ترقی کے لئے آگے بڑھ رہی ہے۔ یونس ڈھاگہ نے کہا کہ مذکورہ رپورٹ کی سفارشات میں‘ اگلے صوبائی مالیاتی ایوارڈ (پی ایف سی) میں وسائل کی تقسیم کرتے ہوئے صنعت کاری کے حامی نقطہ نظر کو اپنانے کے لئے ایک مضبوط کیس بنایا گیا ہے جو طویل عرصے سے زیر التوأ ہے اور اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

 چوتھی پی ایف سی 2007ء میں ہوئی اور 2009ء میں ختم ہو گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ”اس مطالعے نے ایسی تجاویز دی ہیں جو واضح طور پر شہری اور دیہی ضروریات کا احاطہ کرتی ہیں اور حصص کو مساوی حصہ‘ بنیادی ضروریات اور صنعت کاری کے حامی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے پیش کرتی ہیں۔ یہ قابل تقسیم پول‘ عمودی اور افقی تقسیم کے معیارات میں تبدیلیوں کی بھی سفارش کرتا ہے۔ اس نے بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے کرانے اور بلدیاتی اداروں کو ذمہ داریاں مزید منتقل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے کراچی اور صنعتی شہر حب کو نظر انداز کرنے کا ذکر کیا جو صنعتی ترقی کو نظر انداز کرنے کا واضح مظہر ہے۔

 اُنہوں نے اس صورتحال پر افسوس کا اظہار بھی کیا کیونکہ گزشتہ چودہ برس میں سندھ کی آمدنی میں 800فیصد سے زیادہ اضافے کے باوجود صوبائی بجٹ میں کراچی کا حصہ 2008ء میں 178 ارب روپے سے بڑھ کر 2022ء میں 1.680 کھرب روپے تک گر گیا ہے تاہم کراچی کا حصہ بیس فیصد سے کم ہوا ہے۔ پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی)‘ ایک پین انڈسٹری ایڈوائزری باڈی ہے جس نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں غیر صنعتی حکومتی ترجیحات کی وجہ سے بے روزگاری اور درآمدات پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ ’پی بی سی‘ نے تجارتی درآمدات کی طرف عدم توجہی کے رجحان کو مورد الزام ٹھہرایا جبکہ صنعتوں کو ملک میں دیگر کاروباری چیلنجوں کے علاوہ بلند شرح سے ٹیکس‘ توانائی (بجلی و گیس اور پیٹرولیم) کی زیادہ لاگت اور مہنگے قرضوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ 

صنعتکار غیر ملکی تجارت کی وسعت کے لئے زیادہ موثر اقتصادی سفارت کاری چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اُنہوں نے بلدیاتی اداروں پر بھی کام کیا ہو لیکن صنعتوں کے سکڑنے کو روکنے اور صنعت کاری کے عمل کو تیز کرنے کے لئے مقامی حکومت کی بحالی کو تاحال اُجاگر نہیں کیا گیا جبکہ ضرورت مقامی حکومتوں کے فعال کردار کی بحالی اور صنعتوں کے آپسی تعلق کو مضبوط کرنے کی ہے۔
 (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: افشاں صبوحی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)