Climate challenge
موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہونے کا ایک عرصے سے انکار اور اِس مسئلے کو نظراَنداز کیا گیا ہے اور اب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی معیشت و معاشرت میں نقصان اٹھا رہی ہے کیونکہ ملک پانی ختم ہونے اور شدید و بے مثال موسمی خطرات سے دوچار ہے۔ پاکستان تقریباً ہر سال موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے اُور یہ ہر سال اپنا ہی ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ غیر محفوظ ملک ہے۔ مئی میں‘ اقوام متحدہ نے پاکستان کو پچھلے دو سالوں میں خشک سالی کی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنے والے سرفہرست 23 ممالک میں شامل کیا۔ 1998ء اور 2018ء کے درمیان اندازہ لگایا گیا ہے کہ ملک میں موسمیاتی آفات سے تقریباً 10 ہزار جانیں ضائع ہوئیں اور 152شدید موسمی واقعات سے تقریباً چار ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ تجزیہ کاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان کے موسمیاتی تارکین وطن کی تعداد تین کروڑ (تیس ملین) کے لگ بھگ ہے۔ موسموں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کم ہے اور شدید موسم نہ صرف لاکھوں باشندوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ خوراک کی عدم تحفظ اور معاشی نقطہ نظر بھی کم کرنے کا باعث بن رہے ہیں اگرچہ گزشتہ کئی سالوں سے ہیٹ ویوز نے ملک کو متاثر کیا ہے لیکن رواں سال قبل از وقت ہیٹ ویو پیدا ہوئی ہے جس سے لاکھوں لوگ اپنے روزمرہ کے کام کے بوجھ یا طرز زندگی کو ایڈجسٹ کرنے یا کم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اپریل کے اوائل میں شروع ہونے والی بے مثال اور شدید گرمی کی لہر نے ملک کو معاشی نقطہ نظر کو خاص طور پر پنجاب کو جھٹکا دیا ہے۔ یہ صوبہ ملک کی کل گندم کا پچاس فیصد سے زیادہ زرعی پیداوار دیتا ہے لیکن قبل از وقت گرمی کے نتیجے میں ابتدائی کٹائی ہوئی جس کی وجہ سے پیداواری اہداف حاصل نہیں ہوئے۔ پنجاب میں مختلف حصوں میں 41ڈگری سینٹی گریڈ سے 47ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں غیر معمولی اور قبل از وقت اضافہ دیکھنے میں آیا‘ جس نے اس سال موسم بہار کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں 47ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت غیرمعمولی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ گندم اور دیگر فصلوں کو اپنی نشوونما کے لئے ایک خاص وقت پر مخصوص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مارچ اور اپریل میں شدید گرمی کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں اٹھائیس منڈ سے چالیس منڈ تک نمایاں کمی ہوئی ہے۔ مئی میں وفاقی حکومت نے
ملکی ضروریات پورا کرنے کے لئے بین الاقوامی مارکیٹ سے تیس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ رواں سال کی شدید اور چھلکتی گرمی کی لہر نے ’آم کی پیداوار‘ کو بھی نہیں بخشا کیونکہ ملک کو آم کی پیداوار میں تقریباً پچاس فیصد کمی کا سامنا ہے۔ صرف پنجاب‘ جو ملک میں کل آموں کی پیداوار کا 70فیصد پیدا کرتا ہے کو 2022ء کے سیزن کے دوران آم کی پیداوار میں 60 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ آم کے اچھے پھول آنے کے لئے مثالی درجہ حرارت 13ڈگری سینٹی گریڈ سے 30ڈگری سینٹی گریڈ ہونا ضروری ہے لیکن اس سال ان دنوں درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس رہا۔ سال بہ سال درجہ حرارت میں اضافہ دیہی اور شہری علاقوں میں وبائیں پھیلنے کا باعث بنا ہے۔ سال 2020ء میں‘ پنجاب کو تقریباً تیس سال میں سب سے زیادہ تباہ کن ٹڈی دل حملے کا سامنا کرنا پڑا‘ جس نے صوبے کا پندرہ فیصد رقبہ متاثر کیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بحرہئ ہند کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت جنوبی ایشیائی خطے میں ٹڈی دل کے حملے کی بڑی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ درجہ حرارت میں اضافہ ملک میں مہلک فضائی آلودگی کی کئی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ماہرین کے مطابق بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا موسمیاتی بحران سے گہرا تعلق ہے کیونکہ گرم درجہ حرارت سموگ کی تشکیل کے لئے ماحول پیدا کرتا ہے۔ بگڑتی ہوئی فضائی آلودگی بالواسطہ اخراجات کا باعث بن رہی ہے جیسے مزدوروں کی کم فراہمی اور پیداواری صلاحیت‘ ہنر مند مزدوروں کی نقل مکانی اور مالیاتی شعبے میں اتار چڑھاؤ۔ پاکستان میں کئی فصلوں کی کم پیداوار کا تعلق بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے ہے اور یہ کوئی خاص یا واحد وجہ نہیں لیکن طویل خشک سالی اور معمول سے کم بارشیں بھی اِس میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی کے نظام میں سے ایک ہونے کے باوجود‘ پاکستان بھر میں واٹر چینلز کو اس سال فروری سے جون تک معمول سے کم بارشوں کی وجہ سے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ پانی کے ذخائر خالی یا جزوی طور پر بھرے ہوئے ہیں‘ جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئیں ہیں۔ اس سے پہلے کہ حالیہ بارشوں نے چولستان‘ تھل اور ملک کے دیگر صحرائی علاقوں کے مکینوں
کے لئے راحت پہنچائی ہے اور زندگی اجیرن ہوگئی۔ سینکڑوں اور ہزاروں افراد پانی کی تلاش میں اپنے مویشیوں کے ساتھ سبزہ زاروں اور شہری مراکز کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اگرچہ تمام صوبوں کو جون کے آخر تک پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا لیکن سندھ کو ریکارڈ چالیس فیصد کمی کے ساتھ اس کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے خریف سیزن کے لیے بائیس فیصد پانی کی قلت کی توقع کی تھی لیکن اڑتیس فیصد پانی کی کمی کے ساتھ یہ اور بھی خراب نکلا۔ طویل خشک سالی بالآخر جولائی میں مون سون کے موسم کے آغاز کے ساتھ ختم ہو گئی لیکن شدید بارشوں نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ مون سون کی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے اب تک ساڑھے پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں‘ جس میں بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق جولائی 1961ء کے بعد سب سے زیادہ نمی والا مہینہ ثابت ہوا‘ جس میں اوسط سے 181فیصد زیادہ بارش ہوئی۔ ڈیزاسٹر ایجنسی کے مطابق بلوچستان میں سالانہ اوسط سے ساڑھے چارسوفیصد اور سندھ میں 308فیصد زیادہ بارش ہوئیں۔ کراچی میں غیر معمولی اور موسلا دھار بارش نے تباہی مچا دی‘ شہریوں کو ہفتے کے دنوں میں گھروں میں رہنے پر مجبور کر دیا۔ صوبائی حکومت نے شدید بارشوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے ایک دن کی چھٹی کا اعلان بھی کیا۔ مون سون کی بارشوں کے دوسرے سپیل کے دوران‘ شہر میں ایک دن میں پورے موسم گرما کی مالیت سے زیادہ بارش ہوئیں جس سے صرف سندھ میں پچاس سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ لچکدار انفراسٹرکچر کی تعمیر نو میں حکومت کو برسوں لگیں گے کیونکہ یہ اس وقت پہلے سے طے شدہ جیسی صورت حال سے بمشکل بچ رہا ہے۔ لوگوں میں آگاہی کا فقدان اور پائیدار پالیسیوں کی عدم موجودگی دیگر عوامل ہیں جو کم از کم مستقبل قریب میں موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کے خلاف پاکستان کی جدوجہد کو متاثر رکھیں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر آمینہ تنویر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)