۔سال دوہزاراکیس میں‘ برطانیہ میں قائم ایکشن آن آرمڈ وائلنس نے عالمی سطح پر اکسٹھ خودکش حملے ریکارڈ کئے‘ جس کے نتیجے میں 1796 اموات اور زخمی ہوئے۔ ان ہلاکتوں میں سے 1442 (80فیصد) عام شہری تھے‘ جو کہ 2020ء کے مقابلے میں ایسے واقعات میں سات فیصد اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں‘ ہر حملے میں اوسطاً پچیس شہری ہلاک یا زخمی ہوئے۔ عوامی پارکس‘ ٹرانسپورٹ اور بازار آسانی سے قابل رسائی ہوتے ہیں جبکہ شاپنگ مالز اور معروف (اعلیٰ) ترین علاقوں میں ہوٹلوں تک رسائی کم یا مشکل ہوتی ہے۔ فوجی اِداروں اور سرکاری دفاتر تک بھی رسائی محدود ہوتی ہے اور انہیں نسبتاً محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ ہدف کو محفوظ کرنے کے اقدامات سے سکیورٹی میں اضافہ کیا جاتا ہے لیکن اصل ہدف کو نشانہ بنانے میں ناکامی کی صورت میں‘ حملہ آور داخلی مقام یا کسی ایسی بیرونی جگہ کا انتخاب کرتا ہے جہاں وہ اپنے ہدف کے قریب باآسانی پہنچ سکے۔حفاظتی
حصار میں کسی جگہ کیا گیا حملہ زیادہ مہلک ہوتا ہے۔ عام طور پر‘ دھماکے کے دس سے پندرہ فٹ (تین سے ساڑھے چار میٹر) کے اندر موجود ہر شخص کی زندگی خطرے میں ہوتی ہے اور وہ سیکنڈوں میں مارا جاتا ہے۔ آسانی سے قابل رسائی جگہوں پر خودکش حملے کے نتیجے میں سخت حفاظت رکھنے والے افراد کی نسبت اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق عمارتوں کے مرکزی داخلی راستوں پر ہونے والے خودکش حملوں میں اوسطاً ساڑھے چودہ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ آسانی سے قابل رسائی مقامات پر خودکش حملے کے نتیجے میں اوسطاً بارہ اعشارہ چھ ہلاکتیں ہوتی ہیں جبکہ فوجی اڈوں اور چوکیوں جیسی کم رسائی والے مقامات کی وجہ سے اوسطاً 9.7 اموات ریکارڈ ہوئی ہیں۔ جہاں انتہائی اہم شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں اوسطاً فی حملہ چھ اعشاریہ دو لوگ مارے جاتے ہیں۔ فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کی صورت‘ غیرمتعلقہ مرنے والوں کی تعداد 9.2 ہے جبکہ عام شہری کو نشانہ بنانے کی صورت فی خودکش حملہ اموات کا تناسب 13.8 اموات ہوتا ہے۔خودکش حملہ جس میں سٹیشنری بم استعمال کئے جاتے ہیں اوسطاً ساڑھے گیارہ افراد ہلاک ہوتے ہیں جبکہ خودکش حملوں میں موٹرائزڈ ہتھیاروں کے استعمال سے اوسطاً اموات 10.7 ہوتی ہیں۔ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے مقابلے نسبتاً خوشحال ممالک میں خودکش حملے کم مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک جدید ترین ٹیکنالوجی اور ذہانت کا استعمال کرتے ہیں‘
کمیونٹیز کو بااختیار بناتے ہیں اور انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں ٹھوس (حفظ ماتقدم) اقدامات میں زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اعلیٰ شخصیات کو نشانہ بنانے کے لئے بلا امتیاز خود کش دھماکے کئے جاتے ہیں جہاں اہداف کے قریب بارودی مواد پھٹ جاتا ہے۔ اندھا دھند خودکش حملے عام طور پر آسان شہری اہداف کے خلاف کئے جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے تاہم ایسے حملوں سے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ’ماسٹر مائنڈ‘ ایسی حکمت عملی پر کام کرتے ہیں جس سے سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خودکش حملے روکنا بہت بڑا کام ہے لیکن عوام میں شعور بیدار کر کے انسداد دہشت گردی میں عوامی تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے۔ زمینی حقائق سے الگ تھلگ رہنا کوئی قابل عمل آپشن نہیں ہے۔ انسانی جان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ایم علی باباخیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)