موسمیاتی تبدیلی: اقتصادی لاگت 


اچانک آنے والے سیلاب سے پورے کے پورے دیہات کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد سیلاب میں بہہ گئے ہیں‘ہر طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کے خوفناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس تباہی کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور خوراک سے بھی محروم ہیں۔ ہم نے بلوچ فوک گلوکار وہاب بگٹی کی وہ تصویر بھی دیکھی‘ جس میں وہ اپنے کچے مکان کے ملبے پر کھڑا ہے اور اس کی گود میں ایک بچہ تھا۔ پانی میں ڈوبی ہوئی اطراف کی زمینیں ان مشکلات کو بیان کررہی تھیں جو بلوچستان کے لوگوں کو درپیش ہیں۔ بلوچستان حالیہ بارشوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالا صوبہ ہے‘ ان بارشوں میں جان بحق ہونیوالے بچے اور تباہ ہوجانے والے مکانات بس اعداد و شمار ہی بن کر رہ گئے ہیں تاہم جان اور مال کے حقیقی نقصان کو ناپنا کسی طور ممکن نہیں‘ یہ تباہی صرف بلوچستان تک محدود نہیں بلکہ سندھ‘ جنوبی پنجاب اور شمالی علاقہ جات کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ پاکستان کا معاشی مرکز اور سب سے بڑا شہر کراچی بھی کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے جہاں سڑکوں پر گڑھے بن گئے ہیں اور سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ تباہ حال انفراسٹرکچر نے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ بدقسمتی سے بارشوں کا سلسلہ تھما نہیں ہے‘ بتایا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں‘ ہفتوں میں بارشوں کا نیا سلسلہ پاکستان میں داخل ہونے والا ہے۔ پاکستان رواں سال معمول سے تقریباً تین گنا زیادہ بارشوں کا سامنا کررہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان بارشوں کے نتیجے میں جولائی سے اب تک ملک بھر میں تقریباً آٹھ سو افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں تاہم بارشوں سے ہونے والے اصل نقصان کا اندازہ اس سے کہیں زیادہ کا لگایا گیا ہے۔ ہزاروں ایکڑ اراضی پر لگی فصلیں تباہ ہونے سے لوگوں کا ذریعہ معاش بھی ختم ہوگیا ہے‘ متاثرہ لوگوں کی اکثریت اب بھی ریاست کی جانب سے امداد کی منتظر ہے۔ ایک جانب ہماری سیاسی جماعتیں اسلام آباد میں اقتدار کا کھیل کھیل رہی ہیں تو دوسری جانب وہاب بلوچ اور اس جیسے لاکھوں متاثرین سخت موسم کے رحم و کرم پر ہیں۔ عوام کے دکھوں کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں کی یہ مجرمانہ بے حسی ہے۔ یقینی طور پر ملک پہلی مرتبہ کسی قدرتی آفت کا سامنا نہیں کررہا لیکن موجودہ بحران انتہائی سنگین ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے مربوط اور جامع قومی ردِعمل کی ضرورت ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے۔ ان کی زیادہ تر توجہ سیاسی بدلے لینے پر ہے۔ موجودہ سیاسی غیر یقینی اور عدم استحکام نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ ہمیں غیر معمولی تیز بارشوں کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی لیکن انتظامیہ پھر بھی اس حوالے سے تیاریوں میں بُری طرح ناکام رہی۔ ظاہر ہے کہ حکام نے پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں سمجھا۔ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں شدید گرم موسم سے لے کر کچھ علاقوں میں تیز بارشوں اور دیگر علاقوں میں خشک سالی تک دیکھی ہے‘ پاکستان میں درجہ حرارت میں جس اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے وہ عالمی اوسط سے زیادہ ہے‘ شدید درجہ حرارت میں ہونے والے مزید اضافے نے مون سون بارشوں کے وقت اور شدت کو تبدیل کردیا ہے جس کا اظہار رواں سال ہوا۔ ملک کے دیگر علاقوں کے علاؤہ شمالی علاقوں کے درجہ حرارت میں جس اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے وہ زیادہ خدشات کا باعث ہے۔ اس کی وجہ سے گلیشیئرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے قدرتی ماحول متاثر ہورہا ہے۔ یہ دریاؤں میں سیلاب کا باعث بھی بن رہا ہے جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں اگرچہ فضائی آلودگی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا شمار بہت سے ممالک کے بعد کیا جاتا ہے لیکن جب معاملہ فضائی آلودگی کم کرنے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کا آتا ہے تو ہم وہاں بھی بہت پیچھے ہی نظر آتے ہیں۔ توانائی کیلئے فوسل فیول پر تقریباً مکمل انحصار نے آلودگی کی سطح کم کرنا انتہائی مشکل بنا دیا ہے‘ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ نہ صرف ہم اب بھی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر استعمال کر رہے ہیں بلکہ ہم ایسے نئے بجلی گھر تعمیر بھی کر رہے ہیں۔پاکستان نے دنیا سے عہد کر رکھا ہے کہ سال 2030ء تک آلودگی کے اخراج کو نصف کرنا ہے تاہم اِس عہد کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ”نیٹ زیرو“ ہدف کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اس وقت فضائی آلودگی کم کرنے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے جس میں قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع پر تیزی سے منتقل ہونا بھی شامل ہے۔ پاکستان شمسی توانائی اور توانائی کے دیگر ذرائع استعمال کرنے میں بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان کیلئے ”موسمیاتی تبدیلی کی اقتصادی لاگت“ دیگر کئی ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کیلئے موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرہ کہیں زیادہ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ان شدید بارشوں سے زراعت کے شعبے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔اس وقت موجودہ آفت کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصان کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے تاہم ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے زرعی پیداوار میں کمی آئے گی جس سے پہلے سے ہی کمزور معیشت پر مزید دباؤ پڑے گا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف بلوچستان میں ہی اب تک سات لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں‘ سندھ اور پنجاب کے زرعی علاقوں میں نقصانات اس سے بھی زیادہ ہوسکتے ہیں۔ انفراسٹرکچر کو پہنچنے والا نقصان معاشی بحالی کو بہت مشکل بنا دے گا۔ شدید بارشوں اور سیلاب سے سڑکوں اور ڈیموں کو نقصان پہنچا ہے۔ سڑکوں اور دیگر سہولیات کی بحالی کے لئے اربوں روپے کی ضرورت ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اس سے معیشت پر دباؤ پڑے گا تاہم اس سے زیادہ ضروری کام لاکھوں بے گھر لوگوں کی آبادکاری کا ہے جس کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی کوششیں درکار ہوں گی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وجودی اہمیت کے حامل معاملات جیسے موسمیاتی تبدیلی اور اضافہ آبادی کبھی بھی ہمارے سیاسی مباحث کا حصہ نہیں رہے‘ ماضی میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب میں بھی قوم متحد تھی۔ بدقسمتی سے آج کی سیاست نے ملک کو تقسیم کردیا ہے‘ جس وقت عوام مشکل میں ہیں عین اُس وقت ہمارے سیاسی رہنما ایک دوسرے سے اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)۔