موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ

موسمیاتی تبدیلیوں کے جاری ’تباہ کن اثرات‘ میں صرف بارشیں ہی نہیں خشک سالی اور زرخیز زمینوں کی صحرا میں تبدیلی کا عمل بھی شامل ہے۔ کسی علاقے میں حد سے زیادہ سیلاب آنے سے ’تیزرفتار بارش یا سیلاب کا پانی‘ زرخیز مٹی کی تہہ اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے جبکہ اپنے پیچھے پتھر‘ بجری‘ ریت اور ملبے کے ایسے ڈھیر چھوڑتا ہے جن کی صفائی اور زرخیز اراضی کی بحالی ناممکن حد تک دشوار ہو جاتی ہے۔ قدرتی آفات کہلانے والے اِن موسمیاتی اثرات کا اِس طرح نزول درحقیقت ہم انسانوں کی کارستانی ہے اور اِسی کے سبب موسمیاتی تند و تیز مزاج نے ’کرہئ ارض پر انسان کے وجود و بقا کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔‘زرعی پیداوار میں کمی کے ذریعے عالمی غذائی تحفظ کو متاثر کر رہا ہے نتیجتاً دنیا کا غذائی نظام بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اس وقت 821ملین (82 کروڑ) سے زائد افراد خوراک کی دائمی کمی کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مطابق 1850ملین سے زیادہ لوگوں کو معیاری خوراک تک رسائی نہیں۔ خوراک کی عدم دستیابی ایک ارب لوگوں میں مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی کا باعث ہے۔

 غریب ممالک میں زیادہ تر لوگ غذائیت کے لحاظ سے متوازن خوراک حاصل کرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے کئی اقسام کی بیماریاں لاحق ہوتی ہے اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کمزور ہے۔ مزید برآں‘ اشیائے خوردونوش کی مہنگائی بڑھ رہی ہے اور امریکی ڈالر زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے مضبوط ہو رہا ہے اور انہیں دیوالیہ پن کی خطرناک صورتحال کی طرف دھکیل رہا ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری‘ غربت اور بھوک پھیل رہی ہے۔ہمارے ملک میں زراعت غذائی تحفظ کی صورتحال بھی زیادہ مثالی نہیں ہے۔ پاکستان کے موسمیاتی حساس علاقے پیداواری اہداف حاصل کرنے سے قاصر ہوتے جا رہے ہیں اور جنگلات کی کٹائی‘ میٹھے پانی کی فراہمی میں کمی‘ زیر زمین پانی کی کمی اور شدید موسمی واقعات بشمول ہیٹ ویوز اور غیرمعمولی سیلاب سے تباہ ہونے والے ماحولیاتی نظام سے ان کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ زرعی زمین کو کاشتکاری کے علاوہ مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے جو مستقبل میں خوراک کی پیداواری صلاحیت کو مزید خطرات سے دوچار کر دے گا۔ موسمیاتی تبدیلی سے جڑے ان پیچیدہ مسائل نے ہمارے ملک میں بھوک و افلاس بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

 اس طرح‘ لوگوں کو صحت بخش خوراک تک رسائی کو یقینی بنانا قومی‘ علاقائی اور عالمی سطح پر ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق دنیا میں خوردنی عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ چار کروڑ دس لاکھ افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2021ء کے مطابق پاکستان دنیا کے 116 ممالک کی فہرست میں بانوے نمبر پر ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں خوراک کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2021ء کے مطابق پاکستان موسمیاتی تناؤ کا سب سے زیادہ خطرہ رکھنے والے سرفہرست 10ممالک میں شامل ہے۔ موسمی حالات میں تبدیلی نے آبی وسائل کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی بدانتظامی کی وجہ سے کافی حد تک سکڑ رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے آبی وسائل کی ترقی کو مناسب طور پر ترجیح نہیں دی گئی حالانکہ قومی سلامتی پالیسی دستاویز 2022-26ء میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے اور سال 2021ء میں فی کس پانی 908کیوبک میٹر ہے جبکہ سال 2009ء میں 1500 کیوبک میٹر تھا۔

 پاکستان کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ وسیع آبپاشی کا نظام اِس کے پاس ہے جو تین کروڑ پچاس لاکھ ایکڑ کے لئے آبپاشی کی ضروریات پورا کرتا ہے۔ نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی دور میں پانی کی انجینئرنگ کے کئی منصوبے شروع کئے گئے تھے تاکہ دریائے سندھ پر دنیا کا سب سے بڑا کشش ثقل سے چلنے والا آبپاشی نیٹ ورک قائم کیا جا سکے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا رہا ہے جیسا کہ متعدد پالیسی اور آپریشنل مسائل‘ آبپاشی کی سبسڈی‘ لاگت کی وصولی اور پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم اور یہ اچھی واٹر گورننس پالیسی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوا ہے۔ نتیجتاً پانی کو دانشمندی کے ساتھ استعمال کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے‘ پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کھانا کھلانا بہت بڑا چیلنج ہے۔ ڈبلیو ایف پی کے مطابق 43فیصد پاکستانی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں‘ جن میں سے 18فیصد کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ پاکستان میں خوراک کی ضروریات اور دیہی روزگار میں زراعت کا بڑا حصہ ہے تاہم اس کی کارکردگی موسمی حالات پر منحصر ہے۔

آب و ہوا میں تبدیلی زرعی پیداوار کو متاثر کرنے کا باعث ہے جس کے نتیجے میں غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان کا برآمدی شعبہ اِس سے متاثر ہے‘ اس طرح آب و ہوا کے موافق فصلوں‘ مٹی کو تروتازہ کرنے والی تکنیکوں اور گرمی کو برداشت کرنے والے بیجوں کو اپنا کر فصل کے نمونوں میں تبدیلی لانا آب و ہوا کے اثرات سے نمٹنے کیلئے ناگزیر ہو چکا ہے‘ کاشتکاری کے غیر روایتی طریقے‘ فصلوں کے تنوع اور موسمیاتی سمارٹ فارمنگ کی طرف جانے کی ضرورت ہے جبکہ زرعی پیداوار کیلئے اچھی منڈیوں کا قیام اور سہولیات کی فراہمی اور مالی مراعات کے ذریعے کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ زمین کی ترقی‘ آبپاشی‘ فصلوں کی پیداوار اور فصلوں کے تحفظ اور دیگر فارم میکانائزیشن کی سرگرمیوں میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ پیداواری صلاحیت کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے‘ (بشکریہ: دی ایکسپریس ٹریبیون تحریر: ڈاکٹر شجاع ایم مہاسیر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)