140 روزہ کارکردگی

مسلم لیگ نواز کے رہنما میاں شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں اکثریت کی حمایت حاصل کر کے پاکستان کے 23ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھایا اور اُنہیں بطور وزیراعظم ’140 دن‘ ہو گئے ہیں۔ گیارہ اپریل دوہزاربائیس‘ قومی اسمبلی ایوان (پارلیمنٹ) نے نئے وزیراعظم کا انتخاب کیا۔ اُس وقت پاکستان شدید مالی بحران کا شکار تھا اور دیوالیہ پن ہونے کے دہانے پر تھا۔ گیارہ اپریل کے روز‘ جس دن شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا‘ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے کے لئے آمادہ نہیں تھا۔ گیارہ اپریل کے روز‘ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے خالص ذخائر 10.8 ارب ڈالر تھے‘ جو زیادہ سے زیادہ چھ ہفتوں کی قومی درآمدات کے لئے ادائیگیاں پورا کرنے کے لئے بمشکل کافی تھے۔ اپریل میں ’پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس)‘ نے سال بہ سال قیمتوں میں 13.4فیصد اضافہ رپورٹ کیا۔ گزشتہ 140دنوں کے دوران‘ حکومت ممکنہ طور پر دیوالیہ سے بچنے میں کامیاب رہی ہے۔ جون میں‘ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے ”پاکستان کی جانب سے مالیاتی اصلاحات کی تکمیل پر اظہار اطمینان کیا۔“ بائیس جون کو پاکستان نے چین کے ساتھ 2.3 ارب ڈالر کے قرض کی سہولت کے معاہدے پر دستخط کئے۔ ستائیس جون‘ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم ’جی ٹوئنٹی‘ سے 3.68 ارب ڈالر کے قرض میں ریلیف ملا۔ متحدہ عرب امارات نے سرکاری ملکیت میں درج کمپنیوں میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا (ذہن نشین رہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے ’سرمایہ کاری‘ کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا گیا ہے قرض دینے کا نہیں اور قرض کے مقابلے سرمایہ کاری زیادہ مفید ہوتی ہے۔) پاکستان کو قطر سے 2 ارب ڈالر اور سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر ملیں گے۔ پاکستان کے لئے ’آئی ایم ایف‘ کا اعتماد حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یکم جولائی کو ’ایف بی آر‘ نے اطلاع دی کہ اس نے اپنے ہدف  کے مطابق  6ہزار 125ارب روپے اکٹھے کر لئے ہیں۔ گیارہ اگست کو جاپانی سرمایہ کاروں کے وفد نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی۔ بارہ اگست کو‘ پاکستان اور ترکی نے ایک ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط کئے۔ بیس اگست کے روز‘ وزارت تجارت نے قومی ترجیحی شعبوں کی برآمدی حکمت عملی کی نقاب کشائی کی۔ 140 روز پر محیط اِس حکومتی کارکردگی کا دوسرا رخ بھی ہے۔ گزشتہ 140دنوں میں سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر جو کہ موجودہ حکومت کے قیام کے وقت (اپریل دوہزاربائیس) میں 10.8 ارب ڈالر تھے کم ہو کر 7.8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ گزشتہ 140 دنوں کے دوران حکومت کو روزانہ اوسطاً 2 کروڑ (بیس ملین) ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے جو پہلے سے بحران سے دوچار معیشت و اقتصادیات کے لئے بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔ گزشتہ 140دنوں میں مہنگائی (افراط زر) کی شرح 13.4فیصد سے بڑھ کر 24.9فیصد تک جا پہنچی ہے‘جو افسوسناک ہے‘ درحقیقت یہ دو بڑی ناکامیاں ہیں۔ زرمبادلہ ذخائر کا کم ہونا اور افراط زر کی شرح بلند ہونا کسی بھی صورت معاشی مسائل کا حل نہیں ہو سکتے۔ گزشتہ 140دنوں میں‘ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے پاکستان کو ممکنہ طور پر دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ گزشتہ 140دنوں میں وزیراعظم شہباز شریف نے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے اپنی ذاتی اور سیاسی ساکھ داؤ پر لگاتے ہوئے مشکل فیصلے کئے ہیں۔ گزشتہ 140دنوں میں وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں ناکام رہی ہے اور سب سے بڑی ناکامی مہنگائی کے محاذ پر ہوئی ہے۔ تاہم نواز لیگی حکومت کے ایک سو چالیس دن کی کارکردگی مقابلتاً بہتر ہے اور سب سے بڑھ کر بیرونی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں گزشتہ 140دنوں کے دوران واضح بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)