اِس حقیقت میں کسی مغالطے اور غلط فہمی کی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے اوراِس سانحے سے ’بڑے پیمانے پر اور غیرمعمولی تباہی‘ کا مشاہدہ و تجربہ کیا جا رہا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 900 سے زائد افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تین لاکھ سے زائد گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے اور قریب دولاکھ گھر ایسے ہیں جو سیلاب سے مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ اگر اِس پوری صورتحال کے بارے میں سوچا جائے تو ایک گھر میں قریب چھ افراد رہتے ہیں (اور یہ محتاط تخمینہ ہے ورنہ دیہی علاقوں میں فی خاندان افراد کی تعداد دس سے زیادہ ہوتی ہے) تو اِن چھ افراد فی خاندان کے تناسب سے سیلاب متاثرین کی تعداد 3 کروڑ بنتی ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً پندرہ فیصد ہے اور اِس تعداد کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایسے بے گھر افراد کی بھی ہے جو مناسب پناہ گاہوں کے بغیر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
یہی اندازہ وفاقی وزرأ شیری رحمان اور احسن اقبال نے بھی لگایا ہے۔ حکومت ہو یا غیرحکومتی ادارے‘ ہر کسی کے پاس صرف تخمینے ہیں کیونکہ سیلاب اِس حد تک زیادہ ہے کہ اِس کی تباہی اور اور اِس سے ہونے والے نقصانات کی شدت پانی اُترنے کے بعد ہی واضح ہوگی۔ سمجھنا ہوگا کہ سیلاب ایک ایسی آفت ہے جو خود کو مراحل میں ظاہر کرے گی اور اس کے اثرات متاثرہ علاقوں سے کہیں زیادہ ہوں گے لیکن یہ پہلے ہی واضح ہے کہ اس تباہی کا پیمانہ سال دوہزاردس کے سیلاب سے کئی گنا زیادہ ہے جو یکساں تباہ کن تھا۔ اِس وقت صوبہ سندھ کا طول و عرض (کراچی سے کشمور تک) ڈوبا ہوا ہے اور تباہی اس قدر ہے کہ ماضی میں آنے والا ہر سیلاب اس کے مقابلے میں معمولی دکھائی دیتا ہے۔ کچھ علاقوں میں قلیل مدت میں زیادہ بارشیں ہوئیں ہیں۔ مون سون (بارشوں) کا دورانیہ بھی زیادہ رہا ہے جس کی وجہ سے تباہی زیادہ بڑے پیمانے پر ہوئی ہے اور ریسکیو و ریلیف کی کاروائیاں کرنے میں آسانی کی بجائے مشکل سے واسطہ ہے۔
ملک بھر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیرات (انفراسٹرکچر) کو بھی بُری طرح نقصان پہنچا ہے اور یہ بات خاص طور پر افسوسناک ہے جب بات بلوچستان کی ہو جو سیلاب سے پہلے ہی پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ تھا۔ صوبے کے بڑے حصے تک رسائی سے محروم ہونے کی وجہ سے تباہی کی اصل شدت کئی مہینوں تک واضح نہیں ہوسکے گی لیکن اگر ’این ڈی ایم اے‘ کے اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو 710کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں مکمل طور پر سیلاب میں بہہ چکی ہیں اور جب ہم سندھ کی بات کرتے ہیں تو 2200کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں تباہ ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ابھی بدترین اعدادوشمار سامنے آنا باقی ہے کیونکہ ابھی زراعت کو پہنچنے والے نقصانات پر خاطرخواہ غور نہیں کیا جارہا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مطابق کپاس کی پوری فصل تباہ ہو گئی ہے جیسا کہ گنے کی زیادہ تر فصل اور باغات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
یہ نہ صرف کسانوں کے لئے بلکہ ٹیکسٹائل کی صنعت کے لئے بھی بُری خبر ہے‘ جس کی برآمدات کا انحصار زراعت سے ملنے والے خام مال پر ہوتا ہے۔ آنے والے دنوں میں‘ چاول کی ملوں اور چاول کے برآمد کنندگان کو بھی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اور مجموعی زرعی نقصان کا مطلب یہ ہے کہ مڈل مین سے لے کر کیڑے مار ادویات اور کھاد بنانے والے‘ سیلز ایجنٹس اور دیگر عملہ تک‘ پوری زرعی صنعت کا پیداواری سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ اِس صورتحال میں پاکستان کی ضرورت کی مطابق گندم کہاں سے میسر آئے گی اور کیا کاشتکار اِس قابل ہیں کہ وہ آئندہ سیزن کے لئے گندم یا دیگر فصلوں کی کاشت کر سکیں گے؟ یہاں بڑے کاشتکاروں کی بات نہیں ہو رہی جو اِس قسم کے نقصانات کو برداشت کرنے کی سکت و صلاحیت رکھتے ہیں لیکن چھوٹے کسانوں کا تذکرہ ہو رہا ہے جن کے پاس نہایت ہی محدود وسائل اور نہ ہونے کی مساوی جمع پونجی ہوتی ہے۔
زیادہ تر چھوٹے کاشتکاروں کا بال بال قرضوں میں ڈوبا ہوتا ہے اور ایسی صورت میں اگر اُن کے مال مویشی بھی مر جائیں تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ سیلاب کے بعد چھوٹے کاشتکاروں کو بحال میں کتنا وقت لگے گا اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو یا بحالی کس قدر مشکل عمل ہوگا۔ معاشی لحاظ سے مجموعی نقصانات کا مطلب پاکستان کی جی ڈی پی کو ایک بہت بڑا دھچکا اور خوراک کی بڑے پیمانے پر قلت کی صورت ظاہر ہوگا۔ سیلاب سے ہونے والی بڑے پیمانے پر تباہی کی ایک وجہ ’ناقص ترقیاتی ماڈل‘ بھی ہے جس میں آبی گزرگاہوں کی خاطرخواہ توسیع نہیں کی گئی۔ یہ سچ ہے کہ بارشوں کی شدت اِس قدر زیادہ رہی کہ کسی بھی درجے کی تعمیرات اِس اچانک موسمیاتی رویے کا مقابلہ نہ کر سکتی لیکن اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ سیلاب سے ہونے والے کچھ نقصانات ایسے بھی ہیں جنہیں منصوبہ بندی اور پہلے سے وضع کردہ حکمت عملی کے بروقت اطلاق کے ذریعے کم کیا جا سکتا تھا۔ایسا صرف اُسی صورت ہوگا جب ہم سیلاب سے سبق سیکھیں۔ اپنی غلطیاں نہ دہرائیں اور بنیادی و اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا ہم کبھی بھی اپنی غلطیوں سے کچھ بھی سیکھ پائیں گے؟ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ضرار کھوڑو۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)