پاکستان میں جاری سیلاب سے متاثرہ 72اضلاع کو ’آفت زدہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ اِن اضلاع سے تعلق رکھنے والے 3کروڑ 30لاکھ سے زائد افراد متاثر ہیں جو کسی چھوٹے ملک کی کل آبادی کے برابر ہیں۔ سیلاب سے متاثرین میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اور ایک اندازے کے مطابق سیلاب سے 1100سے زائد اموات ہو چکی ہیں جبکہ مزید اموات کا اندیشہ ہے کیونکہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زیادہ زخمی بھی ہیں‘ جن میں ایک تعداد ایسی ہے کہ جنہیں علاج اور خوراک نہیں مل رہی۔کیونکہ ان علاقوں تک رسائی میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ بہت سے علاقوں میں اب بھی سیلابی کیفیت ہے اور وہاں پانی نہیں اترا ہے اور صورتحال سے آگاہی رکھنے والوں کے مطابق اب بھی ان علاقوں سے پانی اترنے میں بہت وقت لگے گا۔ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں روزگار شدید متاثر‘ مال مویشیوں کا نقصانات اور زراعت تباہ ہو چکی ہے۔
جس کے باعث وہاں پر غذائی قلت کا سامنا بھی ہے اور کئی طرح کی بیماریوں کا بھی سامنا ہے۔کیونکہ پانی کھڑا ہونے کے باعث وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ان متاثرہ علاقوں میں خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں افراد اپنے گھروں سے دربدر ہو کر خیمہ بستیوں یا پھر کھلے آسمان تلے شب و روز بسر کرنے پر مجبور ہیں، خوراک‘ صاف پانی‘ گھر اور بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی کے فقدان کی وجہ سے روز بروز سیلاب زدگان کی زندگیاں مشکل سے مشکل تر ہو رہی ہیں اور یہ مشکل ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سیلاب کے بعد اب مزید بہت سے ایسے مسائل سر اٹھا سکتے ہیں جنکے بارے میں پہلے سے پیش گوئی کرنا بھی مشکل ہوتاہے۔ اِس صورتحال میں اقوام متحدہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے جس کے سیکرٹری جنرل ’انتونیو گوتریس‘ اگلے ہفتے پاکستان کے دورے میں سیلاب سے متاثر ہونے والوں کے ساتھ یک جہتی اور ہمدردی کا اظہار کریں گے۔
بین الاقوامی ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ انتونیو گوتریس 9ستمبر کو پاکستان کے لئے روانہ ہوں گے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ اور پاکستانی حکومت نے سیلاب سے نمٹنے میں مدد کے لئے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر امداد کی اپیل کی تھی۔ اقوام متحدہ پہلے ہی پاکستان میں سیلاب کو‘شدید بحران’قرار دے چکا ہے۔ انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ ”جنوبی ایشیا دنیا کے موسمیاتی بحران کا مرکز بن چکا ہے‘ موسمیاتی اثرات سے ان علاقوں میں رہنے والے افراد کے مرنے کے امکانات پندرہ گنا زیادہ ہیں۔ یہ انتہائی خطرے والی بات ہے کہ عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں شدید موسمی اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے زمین تباہی کی طرف جا رہی ہے ہمیں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ آج پاکستان میں سیلاب کی زد میں ہے تو کل کوئی دوسرا ملک بھی اِسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہوسکتا ہے۔“
دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے جو کچھ کہا ہے وہ حقیقت کا اظہار ہے کیونکہ دنیا جس تیزی سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثر ہونے لگی ہے اس کے متعلق پہلے سے لگائے گئے اندازے غلط ثابت ہونے لگے ہیں۔ پہلے یہ کہا جاتا رہا کہ ان عوامل کے اثرات مرتب ہونے میں وقت لگے گا تاہم اب یہ خطرہ نہ صرف سر پر منڈلا رہا ہے بلکہ پوری طرح دنیا اس کے لپیٹ میں آگئی ہے۔ یہاں یہ امر بھی باعث تشویش ہے کہ ترقی یافتہ ممالک جن کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کا عمل تیز ہوا ہے وہ اس ضمن میں متاثرہ ممالک کی مدد کرنے میں تیزی نہیں دکھا رہے اور اس حوالے سے کوتاہی برت رہے ہیں۔یعنی کسی اور کے بوئے ہوئے کو اب ترقی پذیر ممالک کاٹ رہے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہی ہوگا کہ ان متاثرہ ممالک میں پاکستان سرفہرست بن گیا ہے کیونکہ جن حالات کا اس وقت پاکستان کو سامنا ہے کم ہی ممالک کو اس صورتحال سے دوچار ہوناپڑا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ”پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے)“ نے سیلاب سے متاثرہ خواتین کے بارے حقائق پر مبنی ایک ’تشویشناک تصویر‘ پیش کی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سندھ میں ایک ہزار سے زائد صحت کی سہولیات کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچا ہے جبکہ بلوچستان کے متاثرہ اضلاع میں صحت کی 198سہولیات متاثر ہوئی ہیں۔ سڑکوں اور پلوں کو پہنچنے والے نقصانات نے لڑکیوں اور خواتین کی صحت کی سہولیات تک رسائی مشکل بنا رکھی ہے۔ اپنے ہنگامی ردعمل میں ’یو این ایف پی اے‘ نے سندھ‘ بلوچستان‘ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں فوری ترسیل کے لئے طبی سامان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔اقوامِ متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق بھی سیلاب متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہے‘ جس نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سازوسامان پہنچایا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ ”اِس مشکل وقت میں تباہی سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔“ اب تک یو این ایچ آر سی نے پناہ گزین دیہاتوں کے علاوہ میزبان کمیونٹیز کو 71ہزار سے زیادہ ہنگامی امدادی اشیا فراہم کی ہیں‘ جن میں خیمے‘ پلاسٹک کی ترپالیں‘ سینیٹری مصنوعات‘ کھانا پکانے کے چولہے‘ کمبل‘ شمسی لیمپ اور چٹائیاں (بستر) شامل ہیں۔ مجموعی طور پر پندرہ لاکھ ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی جاچکی ہے لیکن مزید امداد کی ضرورت ہے۔صحت کی سہولیات کے حوالے سے خاص کر بحران کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ پہلے سے صحت کے شعبے پر دباؤ ہے اور اب مختلف قسم کی بیماریاں پھوٹنے کے نتیجے میں یہ دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ اس ضمن میں اب پوری قوم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مشکل گھڑی میں متاثرین کی مدد کیلئے وہی جذبہ دکھائے کہ جس کا مظاہرہ اس سے قبل بھی کئی مواقع پرکیا گیا ہے اور یہ پاکستانی قوم ہی ہے جو ان حالات میں یکجان ہوکر صورتحال کوبدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ظل ہما۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)