تاریخ رہی ہے کہ پاکستان میں سیاسی ہنگامہ آرائی کو ’قرار‘ صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب کوئی ”انسانی المیہ“ جنم لیتا ہے۔ کورونا وبا کے دوران بھی یہی دیکھنے میں آیا تھا کہ کچھ وقت کیلئے توجہ سیاسی محاذ آرائی سے ہٹ گئی تھی اور اب جبکہ ملک میں سیلاب کی صورتحال ہے اور تین کروڑ تیس لاکھ لوگ سیلاب سے متاثر ہیں تو اب بھی سیاسی محاذ آرائی کم ہونی چاہئے۔سال 2010ء میں آنیوالے تباہ کن سیلاب کے قریب ایک دہائی بعد پاکستان کو ایک اور قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس مرتبہ قدرت کا جلال پہلے سے زیادہ تھا حالیہ بارشیں اور تباہی 2010ء کے سیلاب سے زیادہ ہوچکی ہیں اور اگر پیش گوئیوں پر یقین کیا جائے تو یہ ابھی ابتدأ ہی ہے سرکاری حکام اور دیگر افراد بھی بارہا موسمیاتی تبدیلیوں اور اسکے اثرات کی نشاندہی کرتے رہے ہیں اس مرتبہ موسمِ گرما کا آغاز جلدی ہوا اور یہ شدید بھی رہا جس دوران لوگ شدید گرمی سے بلبلارہے تھے اسی دوران ہم قبل از وقت اور معمول سے زیادہ مون سون بارشوں کے بارے میں سن رہے تھے اور پھر ایسا ہی ہوا رواں برس بارشیں موسمِ گرما کے قبل از وقت شروع ہونے کی طرح غیر متوقع تھیں ماہرِین موسمیات کا کہنا ہے کہ ”بلوچستان کے کچھ علاقوں میں پہلے خشک سالی کا خطرہ تھا ’موسمیاتی تبدیلی‘ عالمی سطح پر ہونیوالے فیصلوں کے نتیجے میں عمل میں آرہی ہے اور ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان اس کے اثرات کا سامنا کررہا ہے لیکن یہ حالات کی مکمل تصویر نہیں ہے یہ بات تو درست ہے کہ بارشیں اور ان کی شدت ہمارے اختیار میں نہیں ہے لیکن ان بارشوں کے نتیجے میں جو تباہی پھیلتی ہے وہ ضرور ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم کراچی کا ہی ذکر کرلیتے ہیں۔ شہر میں ”اربن فلڈنگ“ ہر سال ہوتی ہے اس کے نتیجے میں کچھ دنوں تک بہت زیادہ بحث و مباحث ہوتے ہیں لیکن پھر اسے بھلا دیا جاتا ہے ناقص منصوبہ بندی‘ بدانتظامی اور مشکلات کی وجہ بننے والے تجاوزات کا کوئی حل نہیں نکالا گیا؟ سوائے ان جگہوں کے جہاں غریب بستے ہیں۔ یوں تجاوزات ختم کرنے کے نام پر غریبوں کو بے گھر کردیا گیا جبکہ بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیوں (جو کہ نالوں پر تعمیر ہیں) کو کچھ نہیں کہا گیا۔ پھر جب توجہ دیگر امور کی جانب ہوجاتی ہے تو زندگی اسی پرانی ڈگر پر چلنے لگتی ہے اور پھر اگلے سال انہی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ کراچی تو مسائل کے حل تلاش کرنے میں ہماری نااہلی کی بس ایک مثال ہے ہم موسمیاتی تبدیلی اور سیلاب پر بھی یہی ردِعمل دیتے ہیں۔ سال دوہزاردس کی بارشوں میں ہم نے جانا کہ بڑھتی ہوئی رہائشی اور دیگر ضروریات کے پیش نظر ہم دریاؤں کے نزدیک تر گھر تعمیر کرتے رہے جو بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کی اہم وجہ بنے‘کراچی اور اسلام آباد جیسے شہری مراکز میں ہونیوالی نامناسب تعمیرات پر تنقید کے دوران بارہا اس بات کی نشاندہی کی گئی‘ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ایک دہائی بعد بھی اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ امکان یہی ہے کہ جیسے جیسے پانی اترے گا اور ٹی وی اسکرینوں سے تباہی کے مناظر ہٹیں گے تب اس حوالے سے سوائے باتوں کے اور کچھ نہیں ہوگا اور دریا کے اندر دوبارہ تعمیرات کی اجازت دیدی جائے گی۔ اس معاملے کا تعلق براہِ راست ہمارے طرزحکمرانی سے ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی اصلاح یا درستگی کی بجائے کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اعداد و شمار کو جمع کیا جائے‘ میپنگ کی جائے اور ریسکیو اور ریلیف آپریشنز کی بہتر منصوبہ بندی کی جائے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سیلاب کے دوران زیادہ خطرات سے دوچار علاقوں کی میپنگ (نقشہ سازی) کی جائے اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ متاثرین کو کہاں لے جایا جائے گا۔ اگر ہمارے پاس ایک مربوط ’فلڈ مینجمنٹ اینڈ ڈیزاسٹرمینجمنٹ سسٹم‘ نہیں ہوگا تو یہ تمام چیزیں بھی بیکار جائیں گی۔ اس نظام کو بنانے کے لئے کسی آفت کے دوران ’این سی او سی‘ سے بھی زیادہ بہتر ادارے کی ضرورت ہوگی۔ اس نظام کی ضرورت سال دوہزاردس میں بھی سامنے آئی تھی جب اس کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھی خاصا نقصان ہوا تھا تاہم ان تمام چیزوں کیلئے ہمارے محکمہئ آبپاشی میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے جن پر پنجاب اور سپریم کورٹ میں تفصیل سے بحث ہوئی تھی۔ رپورٹس کے مطابق دوہزاردس میں آنیوالے سیلاب پر بننے والے ’پنجاب جوڈیشل کمیشن‘ کی رپورٹ میں محکمہ آبپاشی پنجاب کو کافی حد تک ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اِس مرتبہ بھی ایسا ہی سننے میں آیا ہے۔ رپورٹس میں محکمے کے اُن افسران کی نشاندہی بھی کی گئی تھی جن کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے تھا لیکن کسی کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی۔ ایک گوگل سرچ کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح رپورٹس کے منظرِعام پر آنے کے برسوں بعد بھی ان احکامات پر نفاذ کے حوالے سے عدالتوں سے رجوع کیا جاتا رہا۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حکومتیں محکمہئ آبپاشی میں کسی قسم کی اصلاحات کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ رپورٹ میں سیاستدانوں اور سرکاری اہلکاروں کی جانب سے متاثرہ علاقوں کے دوروں کو غیر فائدہ مند بتایا گیا ہے۔ نہ صرف سیاست دانوں بلکہ میڈیا کو بھی ان علاقوں کے دوروں میں احتیاط برتنی چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افسر اپنے دفاتر میں بیٹھ کر پالیسیاں بنائیں اور انہیں نافذ کروائیں نہ کہ وہ متاثرین میں راشن تقسیم کریں۔ یہ کام مقامی حکومتوں کا ہے اور اگر مؤثر مقامی حکومتیں بنائی جائیں تو سیلاب یا دیگر آفات و مشکلات سے نمٹنا زیادہ آسان ہو سکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عارفہ نور۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)