عالمی تحفظ خوراک

سال دوہزارچودہ کے ’کریمیا‘ الحاق کے بعد سے‘ روس نے یوکرین کے خود مختار علاقوں پر ملکیت کا دعویٰ کیا ہے اور اس دعوے کی بنیاد پر حملہ کرنے پر توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ یوکرین کا الحاق ’ڈونیٹسک‘ اور ’لوہانسک‘ نامی علاقوں میں روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند لڑاکا گروہوں کی مالی فنڈنگ اور تربیت سے جنگ کی یہ کہانی شروع ہوئی۔ یوکرین کے ساتھ جنگ سے متعلق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا جنون 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے سے جاری ہے کیونکہ روس اور سوویت یونین دونوں اپنے قیام کے راستوں کو کیوان روس (جدید یوکرین) کی صورت میں دیکھتے ہیں‘ جو روسی ثقافت کی ’جائے پیدائش‘ ہے۔ صدر پیوٹن کے ذہن میں دونوں ریاستیں مغربی مداخلت کے ذریعے الگ الگ  منصوبے کے دو حصے ہیں۔ برسوں کے دوران‘ پیوٹن نے علیحدگی پسند گروپوں کی پشت پناہی کرکے‘ یوکرین کی مقامی سیاست میں مداخلت کرکے اور روس کے مفادات کے حق میں مغرب مخالف حکومتوں کو منتخب کرکے یوکرین پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنے کی اپنی حکمت عملی پیش کی۔ اس جنگ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کی سب سے بڑی جنگ قرار دیا گیا ہے‘ جس کے نتیجے میں بیس لاکھ سے زائد یوکرینی باشندے پناہ گزین ہو چکے ہیں اور ہر جنگ کی طرح اِس جنگ نے بھی انسانی المیے کو جنم دیا ہے جو بحران کی صورت پوری دنیا کو متاثر کر رہا ہے۔ اب تک روس یوکرین جنگ سے چودہ ہزار اموات ہو چکی ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ سرد جنگ کے دوران یورپ کو کئی سیاسی اتحادوں کے ذریعے تقسیم کیا گیا۔ 1955ء کے ’وارسا معاہدے‘ کے ذریعے مشرقی یورپ زیادہ تر سوویت یونین کے کنٹرول میں تھا‘ جبکہ مغربی یورپ ’نیٹو‘ میں شامل ہوا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روس کے پاس مشرقی یورپ میں علاقائی بالادست بننے کے لئے درکار فوجی و اقتصادی طاقت کی کمی تھی۔ جب نیٹو کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا کیونکہ مغربی اور مشرقی یورپ کے مزید ممالک اس اتحاد میں شامل ہوئے تو روس سے متصل بالٹک ممالک کا نیٹو کا رکن بننا روس کے لئے خطرناک جغرافیائی سیاسی اتحاد تھا۔ صدر پیوٹن نے ’نیٹو‘ کی اجتماعی کاروائی کو خطرے کے طور پر دیکھا‘ خاص طور پر جب یوکرین کو 2013ء میں رکن بننے کے لئے کہا گیا تھا‘ جس کے جواب میں روس نواز حکومت نے اس معاہدے کو توڑ دیا۔ فروری 2022ء میں‘ جب روس نے یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا‘ تو صدر پیوٹن نے مشرقی یورپی ممالک پر مغربی اثر و رسوخ کے تیزی سے پھیلاؤ کو روکتے ہوئے خطے پر کنٹرول حاصل کرنے کی امید کا اظہار کیا اور اب بھی روس کی یہی کوشش ہے۔مغربی ممالک نے جنگ میں یوکرین کی حمایت کرنے کے لئے زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی اُن سے توقع تھی کیونکہ یوکرین کا نیٹو کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ نہیں تھا جس کے تحت یورپی ممالک اجتماعی طور پر یوکرین کے دفاع کی کاروائی کا حصہ بنتے لیکن حال ہی میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یوکرین کی حمایت کے لئے تقریباً 13 ارب ڈالر کے ہتھیاروں اور آلات کے پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ نیٹو ممالک میں مزید فوجیوں کو بھی رکھا گیا ہے‘ جو یورپ پر روسی حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ روس یوکرین جنگ کا اثر صرف یورپ تک محدود نہیں رہا اور اِس نے خوراک کی فراہمی کے عالمی نظام کو متاثر کیا ہے۔ روس اور یوکرین دونوں سورج مکھی کے تیل کی عالمی سپلائی کا 75فیصد اور گندم یا گندم سے بننے والی مصنوعات کا تقریباً ایک تہائی حصہ فراہم کرتے ہیں۔ جنگ کی وجہ سے یوکرین کے کسان زرعی پیداوار پر پابندی کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے ہے اور روس کی طرف سے یوکرین کی بندرگاہوں پر پابندی اور مغرب کی طرف سے روس پر پابندیوں نے عالمی خوراک کی فراہمی کا پورا نظام گویا کہ تہس نہس کر دیا ہے۔ ان اقدامات نے بہت سے یورپی ممالک جیسا کہ جرمنی میں بھی خوراک اور گیس کی فراہمی کو متاثر کیا ہے‘سال دوہزاربیس کے دوران‘ یوکرین پاکستان کو گندم فراہم کرنے والا اہم ملک تھا۔ تب اِس نے 1.2 میگا ٹن گندم پاکستان کو فراہم کی تھی۔ یوکرین 6 لاکھ 3 ہزار 700 مربع کلومیٹر پر پھیلا ملک ہے جبکہ پاکستان 7 لاکھ 96 ہزار 95 مربع کلومیٹر رقبہ رکھتا ہے اور یوکرائن کے مقابلے پاکستان میں زراعت کے لئے زیادہ رقبہ اور ضروریات موجود ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیرکاشت رقبہ 3 لاکھ 63 ہزار مربع کلومیٹر ہے جبکہ یوکرین میں 4 لاکھ 13 ہزار 90 مربع کلومیٹر رقبے پر زراعت ہوتی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ یوکرائن کی حکومت نے اپنے ملک کے کل رقبے کے زیادہ بڑے حصے کو زراعت کے لئے مختص کر رکھا ہے اور وہاں زرعی ترقی کو ایک خاص نکتہئ نظر سے ترقی دی گئی ہے کہ اِس سے ایک طرف ملک کی معیشت کو سہارا دیا گیا تو دوسری طرف زرعی اجناس کی برآمدات سے زرمبادلہ بھی کمایا جاتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘ اِس کے پاس آبپاشی کا وسیع و فعال نظام موجود ہے لیکن اِس نے سال 2020ء میں یوکرین سے 1.2میگا ٹن گندم برآمد کی تھی! یوکرین کی طرح پاکستان روس سے گندم درآمد کرتا ہے اور سال 2020ء میں پاکستان نے روس سے قریب 0.92 میگا ٹن گندم درآمد کی۔ پاکستان کی طرف سے اِن 2 ممالک (روس و یوکرائن) سے گندم کی بڑھتی ہوئی درآمد (انحصار) جنگ کی وجہ سے متاثر ہوا ہے اور جب تک روس یوکرین تنازعہ جاری رہے گا اُس وقت تک پاکستان کو گندم کے حصول کے لئے دیگر ممالک (منڈیوں) کی تلاش کرنا پڑے گی۔ اِس غذائی عدم تحفظ کا پائیدار حل یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں پاکستان میں زراعت کو کم سے کم اِس حد تک ترقی دی جائے کہ یہ ملکی ضروریات کے مطابق اجناس پیدا کر سکے اور دوسرے مرحلے میں زرعی پیداوار اِس حد تک بڑھائی جائے کہ پاکستان کا شمار تمام غذائی اجناس برآمد کرنے والے ممالک میں ہونے لگے۔ اِس سلسلے میں اگر پاکستان کو روس یوکرین چین یا کسی بھی دوسرے ملک سے اگر کچھ درآمد کرنے کی ضرورت ہے تو وہ ’زرعی ٹیکنالوجی‘ ہے جس کا استعمال کرکے کاشتکاروں کو خوشحال اور فی ایکڑ زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے پاکستان اب ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں گندم اور دیگر درآمدی مصنوعات کی قلت کا سامنا کرنے کے لئے متبادل ذرائع تلاش کرنا ناگزیر ہے۔ گندم اور ایندھن کی سپلائی لائن منقطع ہونا اُن ممالک کے لئے نقصان دہ ہے جو یوکرین اور روس پر انحصار کرتے تھے۔ پاکستان کے لئے مستقبل میں غذائی بحران سے نمٹنے کے لئے متبادل ذرائع تلاش کرنا ہوں گے اور ضروری خوراک کی فراہمی کے لئے فوری طور پر (بلاتاخیر) دیگر ممالک پر انحصار کرنا ہوگا کیونکہ روس یوکرائن تنازعہ جلد حل ہونے کی اُمید نظر نہیں آ رہی اور لگتا ہے کہ یہ تنازعہ آنے والی کئی دہائیوں تک دنیا کو متاثر رکھے گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ایم رافعے وقار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)