غیرملکی قرض و امداد کی حقیقت؟

عصر حاضر انسانی معاشرت کا جدید دور کہلاتا ہے اور اِس مبینہ جدید دور میں کوئی بھی ملک تنہائی میں ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ اُسے تجارت کرنا ہوتی ہے اور چاہے یہ کسی بھی قسم کی تجارت ہو جیسا کہ ایندھن‘ ٹیکنالوجی‘ مزدوری وغیرہ۔ اِس جدید دنیا میں پاکستان ایسا ملک ہے جو اپنی ضروریات بھی درآمد کرتا ہے اور پاکستان کی معیشت کا بہت زیادہ انحصار درآمدات پر ہے اس طرح ہماری تجارت عدم توازن سے دوچار ہے۔ کہ اِس کے پاس درآمدات کے لئے درکار غیرملکی زرمبادلہ نہیں ہوتا اور اِسے بین الاقوامی قرض دہندگان سے قرض لینا پڑتا ہے تاکہ درآمدات اور برآمدات میں موجود فرق کو پُر کیا جا سکے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں امدادی ادارے (ڈونر ایجنسیاں) اور کثیر جہتی قرض دہندگان‘ جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)‘ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کا کردار سامنے آتا ہے۔ یہی وہ مرحلہئ فکر ہے جہاں ترقی پذیر ممالک خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں کیونکہ دنیا کی معیشت کو قرض کے ذریعے کنٹرول کر کے اپنے مفادات حاصل کرنے والی عالمی طاقت کے چنگل سے نکلنا آسان نہیں ہے۔ قرض دہندگان بظاہر آسان شرائط پر قرض فراہم کر رہے ہوتے ہیں لیکن ایسا کوئی بھی قرض غیرمشروط نہیں ہوتا۔ برطانیہ کے معروف اخبار ’دی گارڈین‘نے ستمبر 2018ء میں ایک مضمون شائع کیا تھا جو مصنف‘ لیکچرر اور براڈکاسٹر کینن ملک کا لکھا ہوا تھا اور اِس میں سابق برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے اس اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ”برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) سے متعلق فیصلے کے بعد کی دنیا میں‘ برطانیہ کا امدادی بجٹ برطانوی تجارت اور سیاسی مفادات کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔“ کینن ملک کے مذکورہ مضمون میں کثیر جہتی فنڈنگ کے بارے میں انکشافات کئے گئے جن سے پتہ چلا کہ ’آئی ایم ایف‘ جیسے اداروں کی طرف سے‘ کسی ملک کو دی جانے والی امداد کا ایک بڑا حصہ اُن کی مرضی کے مطابق منصوبوں یا شعبوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرض دینے کے ساتھ ’آئی ایم ایف‘ عالمی سیاسی و اقتصادی مفادات کا تحفظ بھی کرتی ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ کے فیصلے کسی ایک ملک کی مرضی (اُس کے ایک ووٹ) کے تحت نہیں کئے جاتے بلکہ اِس فیصلہ سازی میں کئی ممالک شریک ہوتے ہیں اور جو ملک ’آئی ایم ایف‘ کو جس قدر مالی وسائل فراہم کرتا ہے اُس کی رائے اُسی قدر غالب (اہمیت کی حامل) ہوتی ہے۔ پاکستان بھی ’آئی ایم ایف‘ کا رکن ہے اور پاکستان کے پاس 0.4فیصد ووٹ ہے۔ امریکہ کے پاس 16.5فیصد ووٹ ہیں اور اس کے قریبی اتحادی ممالک جاپان‘ جرمنی‘ برطانیہ اور فرانس کے پاس بالترتیب چھ فیصد‘ پانچ فیصد اور چار فیصد ووٹ ہیں۔ چین کے پاس آئی ایم ایف ووٹنگ کا حصہ چھ فیصد ہے۔ اِس ووٹنگ کے تناسب سے واضح ہو گیا ہے کہ کس طرح آئی ایم ایف پر مغربی ممالک اور مغربی ممالک کے اداروں کی رائے مسلط ہے اور وہ آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مالی سال دوہزاراکیس میں پاکستان نے ’آئی ایم ایف‘ کو ملنے والے چھ سو ملین ڈالر زیادہ رقم واپس کی جبکہ مالی سال دوہزاربیس میں پاکستان کو 2.1 ارب ڈالر قرض دیا گیا۔ مجموعی طور پر مالی سال دوہزاربائیس کے جولائی تا مارچ میں موصول ہونے والے تمام کثیر جہتی اور دوطرفہ فنڈز کا خالص حصہ پانچ ارب ڈالر تھا۔ترقی یافتہ ممالک جو آئی ایم ایف کا حصہ ہیں اُن میں سے کئی ممالک کی سالانہ قومی آمدنی سینکڑوں ارب ڈالروں میں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ملک کی ’جی ڈی پی‘ 380 ارب ڈالر ہے تو اُس کے لئے دو ارب ڈالر قرض دینا کونسی بڑی بات ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کے بیرونی قرضوں میں پھنسنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف ملک کے اخراجات (اور درآمدات) اس کی آمدنی (اور برآمدات) سے کہیں زیادہ ہیں۔ہمارے بیرون ملک کام کرنے والے زیادہ تر غیر ہنر مند ہیں، اور نسبتاً آسانی سے دوسرے غریب ممالک سے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی برآمدات میں کپاس‘ چمڑا اور چاول کل برآمدات کا 70 فیصد ہیں جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پاکستان سے دیگر اجناس و اشیا کی برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان جن ممالک کو برآمدات کرتا ہے اُن میں اکیس فیصد امریکہ‘ گیارہ فیصد چین‘ سات فیصد برطانیہ اور پانچ 5 فیصد جرمنی شامل ہیں۔ اِن ممالک کے علاوہ بھی دیگر ممالک کو پاکستان سے برآمدات کی جاتی ہیں لیکن اُن کا حجم زیادہ قابل ذکر نہیں ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی جانب سے برآمدات کی عالمی منڈیوں تک رسائی صرف اُسی صورت ممکن ہوتی ہے جبکہ یہاں سے درآمدات کی اجازت دینے والے مغربی ممالک کی طرف سے اِنہیں ’پسندیدہ ملک‘ کا درجہ ملے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی ملک ترقی پذیر ملک کو اپنے پسندیدہ ممالک کی فہرست سے خارج کر دیتا ہے تو اِس کے بعد وہاں کی منڈیوں تک ان ممالک سے برآمدات کا دروازہ (امکان) بھی بند (ختم) ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان سے ناراض ہونے والے مغرب ممالک یا امریکہ اپنی ضروریات کے لئے تولیے کسی دوسرے ملک سے بھی لے سکتے ہیں اور پاکستان سے آنے والوں کو اپنے ملک کام کاج‘ رہائش‘ سیروتفریح اور تعلیم حاصل کرنے پر بھی اعلانیہ یا غیراعلانیہ پابندی عائد کر سکتے ہیں۔ ماضی میں ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں جب پاکستان پر پابندی عائد کر دی گئی۔ کسی ملک کی ترقی اور خودانحصاری کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مالیاتی شکنجوں میں جھکڑا ہوا نہ ہو۔ اِس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کی درآمدات و برآمدات میں عدم توازن اگر توازن سے نہیں بدلتا یعنی پاکستان کی برآمدات میں اضافہ نہیں ہوتا تو پھر پاکستان کو اپنی درآمدات میں کمی لانا ہوگی۔ اپنے قومی اخراجات کم کرنا ہوں گے تاکہ قرض لینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرض دہندہ کی پہلی اور سب سے بڑی ترجیح اپنے قرضوں کی وصولی ہوتی ہے اور اُسے قرض لینے والے ملک کے مسائل و مشکلات سے رتی بھر ہمدردی نہیں ہوتی۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ظفر الدین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)