مستقبل کی فکر

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس اُنتیس اگست کو پاکستان کے ”مشترکہ ساتویں اور آٹھویں جائزوں کے لئے منعقد ہوا جس کے لئے پاکستان کی طرف سے کارکردگی کے معیار کو دیکھتے ہوئے چھوٹ اور قرض کی اقساط جاری کرنے‘ قرض میں توسیع‘ اضافہ اور دوبارہ ترتیب دینے کی درخواست دی گئی تھی۔ مذکورہ اجلاس میں ’آئی ایم ایف‘ کے فیصلہ سازوں (ایگزیکٹو بورڈ) نے 3 چیزیں کیں۔ بیل آؤٹ پروگرام بحال کیا۔ قرض کا حجم چھ ارب ڈالر سے بڑھا کر ساڑھے چھ ارب ڈالر کر دیا اور قرض میعاد ختم ہونے کی تاریخ جون 2023ء تک بڑھا دی گئی۔ بورڈ کے فیصلے کے نتیجے میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی قسط وصول ہوئی ہے۔ پاکستان کے وزیرخزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اور ان کی ٹیم ’آئی ایم ایف‘ سے کامیاب مذاکرات کے لئے مبارکباد کی مستحق ہے۔ پاکستان نے اب تک ’آئی ایم ایف‘ سے 23 مرتبہ قرض لیا ہے اور اِن سبھی 23 قرضوں میں موجودہ تیئسواں قرض سب سے زیادہ مشکل سے ملا ہے اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ کی جانب قرض دینے کے ساتھ شرائط بھی تسلیم کرنا پڑتی ہیں اور ان شرائط میں ہفتہ وار تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ نے واقعی ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کے صبر اور برداشت کا امتحان لیا جبکہ ڈاکٹر مفتاح نے اچھے فیصلے اور ویژن کا مظاہرہ کیا۔ امید ہے کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس کے بعد قطر سے چند ارب ڈالر بھی مل جائیں گے اور یہ بھی امید ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ سے قرض ملنے کے بعد سعودی عرب سے بھی ایک ارب ڈالر مالیت کا تیل موخر ادائیگی پر ملے گا۔ امید ہے کہ متحدہ عرب امارات کی ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی ہماری سرکاری ملکیت والی پبلک لسٹڈ کمپنیوں میں حصص خریدنے میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ ذہن نشین رہے کہ رواں برس پاکستان کی مجموعی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت چھتیس ارب ڈالر ہے اور اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت رواں برس کی ضرورت پورا کرنے کی جانب رواں دواں ہے۔ یاد رکھیں کہ ہمیں اگلے سال کے لئے اضافی 35 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ اِس صورتحال میں سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس ’آئی ایم ایف‘ کے بعد‘ سعودی عرب کے بعد‘ متحدہ عرب امارات کے بعد اور قطر کے بعد کہیں سے مالیاتی سہارا ملنے کی اُمید یا اِس سلسلے میں منصوبہ ہے؟ قومی فیصلہ سازوں نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ صرف دو ماہ اگست اور ستمبر میں کمرشل بینکوں سے 6.78 کھرب روپے قرض لینے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ فیصلہ سازوں نے ہمیں بتایا ہے کہ پچھلے قرضوں کی ادائیگی اور بجٹ خسارہ پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ فیصلہ سازوں نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان کے کل قرضہ جات اور واجبات کا حجم ساٹھ کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ہم ایک حقیقت کے لئے جانتے ہیں کہ ’ایف بی آر‘ کے تمام ٹیکسز کا نوے فیصد قرض پر سود کی ادائیگی اور امدای رقومات پر خرچ ہو جاتا ہے۔ کیا حکومت کے پاس کوئی دوسرا منصوبہ ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ حکومت کے پاس اس سے بھی زیادہ قرض لینے‘ مزید قرض اور مزید قرض لینے پر مبنی ٹھوس منصوبے ہیں۔ کیا فیصلہ ساز بتائیں گے کہ ’آئی ایم ایف‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر سے ملنے والے پانچ ارب ڈالر کب تک چلیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو ہر ماہ یعنی مالی سال کے ہر مہینے 3 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ قومی فیصلہ ساز جانتے ہیں کہ قرضوں کے ذریعے ملک چلانا غیرپائیدار ہے۔ قومی فیصلہ ساز یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرض درحقیقت گڑھا ہوتا ہے جسے قرض کی ہر قسط مزید گہرا کر دیتی ہے۔ قومی فیصلہ ساز جانتے ہیں کہ پاکستان کو تین درجاتی مالیاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایک متوازن بجٹ‘ قرض ادا کرنے کے لئے نجکاری اور تیسرا قرض سے نکلنے کے لئے اقتصادی ترقی پر مبنی حکمت ِعملی۔ ’۔ اِس موقع پر دو سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہئے۔ پہلا یہ کہ کیا حکومت کے پاس مالیاتی استحکام کا کوئی منصوبہ ہے؟ اور دوسرا سوال کیا حکومت کے پاس نجکاری کی حکمت عملی ہے؟ اور منصوبہ بندی اور اصلاحات نہیں کی جائیں گی تو قرض کے چند ارب ڈالر بھی ختم ہو جائیں گے اور ملک صرف اُمید کے سہارے نہیں چلایا جا سکتا کیونکہ ”اُمید کوئی منصوبہ نہیں ہوتی۔“بہر حال یہ اہم پیش رفت ہے کہ وفاقی حکومت کی کوششوں سے آئی ایم ایف پروگرام بحال ہونے کے بعد معاشی اشارئیے مثبت جا رہے ہیں تاہم ان کے ساتھ ساتھ اب ایسے پائیدار اقدامات کی بھی ضرورت ہے جس سے قرضوں کا یہ سلسلہ ہی رک جائے اور ملکی معیشت اپنے وسائل اور ذرائع کے استعمال سے مستحکم ہو۔ نیت نیک ہو اور حوصلہ و عزم ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ مشکل سے مشکل مرحلہ آسان  نہ ہو۔ پاکستان اس سے بھی مشکل حالات کو مقابلہ ماضی میں بخوبی کر چکا ہے اور اب بھی یہی نظر آرہا ہے کہ ملک اس معاشی بحران سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کی طرف گامزن ہے جس نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)