گورباچوف کی یاد (میراث)

سوویت یونین کی سیاسی تاریخ خاموشی کا مجموعہ ہے اور اسی طرح سابق صدر میخائل سرگئیوچ گورباچوف نے نہایت ہی خاموشی سے رخصت ہو گئے۔ وہ شخص جسے جدید سیاسی تاریخ کے سب سے حیران کن تجربے یعنی سوویت یونین کے انہدام کا سہرا دیا جاتا ہے نے گزشتہ ہفتے ماسکو کے سنٹرل کلینیکل ہسپتال میں آخری سانس لی اور یوں اُن کے ساتھ اُن کی سیاسی وراثت بھی دفن ہو گئی۔ گورباچوف کے بعد بورس یلسن اور ولادیمیر پوتن دونوں صدور نے گورباچوف کی شروع کردہ جمہوریت اور لبرلائزیشن پر عمل نہیں کیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے یوکرین پر روس کا حملہ دیکھا جو اُن کے سیاسی فلسفے کی غیر رسمی تدفین تھی۔ ایک عملی‘ ہوشیار اور عقلی سیاست دان کے طور پر‘ وہ یہ اندازہ نہیں لگا سکتے تھے کہ مرکزی اشتراکی نظام کو ختم کئے بغیر اصلاحات ناممکن ہیں جسے سوویت یونین کے لاکھوں لوگ نہیں چاہتے تھے۔ وہ روس کی حدود سے باہر تقریباً ہر ایک کے لئے ہیرو ہیں لیکن وہ سوویت قوم پرستوں کی ایک بڑی تعداد کے لئے ولن کی حیثیت رکھتے ہیں‘ جن میں ولادیمیر پوتن بھی شامل ہیں۔

جنہوں نے سوویت یونین کو ختم کرنے کے ’جرم‘ کے لئے گورباچوف معاف نہیں کیا۔ وہ سوویت رہنماؤں کی روایتی نسل سے مختلف تھے جو ان سے پہلے ستر سال تک ملک چلا رہے تھے۔ جوزف سٹالن‘ لیونیڈ بریزنیف‘ کونسٹنٹن چرنینکو جیسے اپنے وزنی پیشروؤں اور پوٹن کے برعکس گورباچوف قطعی مختلف تھے۔ جنہیں عہدوں اور نام کی لالچ نہیں تھی۔ سوویت یونین کی نظریاتی طور پر کارفرما خارجہ پالیسی کو ترک کرکے گورباچوف نے سرد جنگ کے شعلوں کو بجھا دیا اور انسانیت کو ایٹمی تباہی کے دہانے سے واپس لائے۔ گورباچوف کی سب سے بڑی کامیابی انتہائی عسکریت پسند مطلق العنان حکومت کی نسبتاً نرم تحلیل تھی جو دنیا کے سب سے بڑے جوہری ہتھیاروں سے لیس تھی۔ ٹوٹ پھوٹ سے پہلے کے سالوں میں‘ اس کے پاس سوویت یونین کی بحالی اور اقتدار کی بحالی کے بے شمار مواقع تھے لیکن گورباچوف نے ہمیشہ اس سمت میں آگے بڑھنے سے گریز کیا۔

 سوویت یونین کے آخری بحران کے دوران‘ اپنی طاقت اور حیثیت کے ساتھ‘ گورباچوف نے فوجی سخت گیر عناصر کو بالٹک ریاستوں میں طاقت کے استعمال سے روکے رکھا اور فیصلہ کن لمحات پر‘ مشرقی یورپ میں سوویت سلطنت کو بچانے کے لئے فوج کے استعمال کے تمام تر فتنوں کا مقابلہ کیا اور ان قوم پرست تحریکوں کو دبایا‘ جو ہر وقت سوویت یونین کو توڑ رہی تھیں۔ لاکھوں امریکیوں کے ساتھ ساتھ دیگر مغربی باشندوں نے سوویت یونین کو اپنے جمہوری اور لبرل نظام کے لئے وجودی خطرہ سمجھا اور پھر دسمبر 1991ء میں سوویت یونین جو کہ کمیونزم کا اصل مرکز تھا بغیر کسی سرگوشی کے تیزی سے اور پرامن طریقے سے تحلیل ہو گیا۔ زیادہ تر سابق سوویت جمہوریہ نے آزادی حاصل کی اور باقیوں نے ایک نئی نام سے اتحاد بنایا کامن ویلتھ آف انڈیپنڈنٹ سٹیٹس (CIS) کہا جاتا ہے۔ تاریخ کے کوڑے دان میں جانے سے پہلے سوویت یونین نے مشرقی یورپ میں اپنی کالونیوں کو آزاد کرایا۔ سب سے اہم اور علامتی رول بیک بغیر کسی لڑائی اور مزاحمت کے جرمنی کا دوبارہ اتحاد تھا۔

 برلن‘ جسے ریڈ آرمی کی طرف سے دوسری جنگ عظیم میں نازی جنگی مشین کے خلاف زندگی اور موت کی جدوجہد کے لئے جیتا گیا تھا سب سے قیمتی انعام سمجھا جاتا ہے۔ اسے جرمنوں کے حوالے کیا گیا جو کہ ’ہتھیار ڈالنے‘ کا عکاس تھا۔ اس وقت ڈریسڈن میں تعینات ایک نوجوان کرنل سوویت یونین کے جرمنی اور مشرقی یورپ سے رضاکارانہ انخلأ اور اس کے خود ساختہ انخلأ کو روسی تاریخ کا سب سے شرمناک اور ذلت آمیز لمحہ تصور کرتا تھا۔ یہ نوجوان سوویت کرنل ولادیمیر پیوٹن تھا۔ اینڈروپوف کی موت کے بعد جب گورباچوف نے 1985ء میں چارج سنبھالا تو سوویت یونین بظاہر کافی مستحکم حالت میں تھا اور 1991ء کے بعد کئی دہائیوں تک اسی انداز میں آسانی سے زندہ رہ سکتا تھا۔ خاص طور پر چونکہ افغان مجاہدین کے علاوہ کوئی بھی واقعتاً سوویت یونین سے لڑنے کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔ 1989ء کے اواخر تک مشرقی یورپ میں نصف ملین سے زیادہ فوجی تعینات تھے اور دسیوں ہزار ایٹمی وار ہیڈز پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے اور زمین پر کسی بھی منزل تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ 

سوویت یونین اب بھی پوری دنیا میں کسی بھی دشمن کو تباہ کرنے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔سوویت یونین‘ مری ہوئی معیشت اور باسی سماجی ثقافت کی وجہ سے‘ 1970ء کی دہائی سے اندرونی بحرانوں کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ سوویت معیشت سرمایہ دار مغرب کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ خاص طور پر اپنے لوگوں کو اشیائے خوردونوش کے معیار اور مقدار کی فراہمی کے معاملے میں حکومت ناکام دکھائی دیتی ہے جو کامیاب معاشروں کا امتیاز ہوتا ہے۔ قیادت کا بحران روس کے خستہ حال معاشرے اور سوویت یونین کی تباہ حال معیشت کی بنیادی وجہ تھی۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں کے رہنما جب تک اقتدار پر فائز رہے‘ ان میں سے کچھ آخری رہنما خاموشی سے دنیا سے رخصت ہوئے جن میں لیونیڈ بریزنیف اور یوری اینڈروپوف شامل ہیں۔ 

اینڈروپوف کی زندگی کے آخری دنوں میں‘ اس کے جسم کا واحد عضو جو بظاہر ٹھیک سے کام کر رہا تھا وہ اس کا دماغ تھا۔ میخائل گورباچوف‘ جو 1985ء میں اینڈروپوف کے بعد آئے تھے‘ نے ذہانت و مہارت کا مظاہرہ کیا۔ ایک ہوشیار رہنما ہونے کے ناطے گورباچوف نے سوویت یونین میں اقتدار تک پہنچنے کے لئے بہت محنت کی۔گورباچوف نے کو یقین تھا کہ کمیونزم میں واقعی اصلاح کی جا سکتی ہے اور سوشلزم کو انسانی چہرہ دیا جا سکتا ہے۔ اس موقف نے سوویت یونین کی سیاست اور معیشت کو نئے سرے سے متحرک کرنے کیلئے (کھلے پن) اور (مارکیٹائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کی اجازت دینے والی معاشی تعمیر نو) جیسی اصلاحتی پالیسیوں قبول کرنے پر مجبور کیا اور جب اس کی بنیاد پرست پالیسیوں نے غیر متوقع رد عمل کو جنم دیا تو علیحدگی پسند قوم پرستی اور مشرقی یورپ میں سوویت سیٹلائٹ کالونیوں میں روس کا اثرورسوخ زوال پذیر ہونے لگا۔ 

گورباچوف نے بار بار اصلاحات کو روکنے یا جبر کو استعمال کرنے سے انکار کیا۔ اپنے چینی کمیونسٹ ہم منصبوں کے بالکل برعکس جو بالکل اسی لمحے نوزائیدہ جمہوریت نواز تحریک کو ختم کرنے کے لئے طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کر کر رہے تھے لیکن گورباچوف نے 1989ء میں اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے طاقت کے استعمال کا انتخاب نہیں کیا۔ گورباچوف نے ذہن بنا لیا تھا کہ سوشلزم کو جمہوری طریقے سے بچایا جا سکتا ہے‘ ورنہ یہ ہرگز نہیں بچ سکے گا۔  (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)