پاکستان نے افغانستان اور ایران سے درآمد شدہ ٹماٹر اور پیاز کو چار ماہ کے لئے سیلز اور وِد ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دیا ہے تاہم ابتدائی غور و خوض کے بعد وفاقی کابینہ نے بھارت سے زمینی راستے کے ذریعے ان اشیا کی درآمد کے فیصلے کو مؤخر کردیا ہے۔ شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی پہلے سے کمزور معیشت کو مزید نقصان پہنچا ہے اور حکومت نے ابھی تک اس بحران سے نمٹنے کے لئے کسی جامع منصوبے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ملک میں بین الاقوامی امداد آنے لگی ہے جو یقینی طور پر فوری نوعیت کے چیلنجز سے نمٹنے میں معاون ثابت ہوگی تاہم انفرااسٹرکچر کی بحالی اور تعمیرِ نو کے لئے دس ارب ڈالر سے زائد درکار ہوں گے۔ حالیہ سیلاب سے ملک کی نصف زرعی زمینیں متاثر ہوئی ہیں جس سے غذائی عدم تحفظ کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔
حکومت اس بنیاد پر غیرملکی امداد کی منتظر ہے کہ یہ سیلاب گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آئے ہیں اور پاکستان کا گلوبل وارمنگ میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود ملک کو ماحولیاتی تباہی کے ضمن میں شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اور سب سے اہم یہ ہے کہ زرعی پیدوار کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی مشکل سے ہوگی۔موجودہ صورتحال میں سبزیوں کی درآمد عام آدمی کے لیے یہ بہت بڑا ریلیف ثابت ہوسکتا ہے۔ لوگ پہلے ہی مہنگائی بشمول سبزیوں کی بڑھتی قیمتوں سے پریشان ہیں جس وجہ سے انہیں ریلیف ملنا چاہئے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ملک میں ذخیرہ کرنے کی ناکافی صلاحیت‘ ذخیرہ اندوزی اور زرعی شعبے میں موجود مڈل مین کے باعث چالیس فیصد خوراک ضائع ہوجاتی ہے۔
حکومت اور نجی شعبے کو ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور اس دوران پاکستان کو چاہئے کہ اپنی مارکیٹ سستی سبزیوں، پھل اور اجناس کے لئے کھولے۔ قدرتی آفات سے زندگیوں‘ کاروبار اور انفرااسٹرکچر کا تو نقصان ہوتا ہی ہے لیکن اس سے دل بھی پگھلتے ہیں اور قیامِ امن کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ممالک کے درمیان تجارتی سہولیات ایسی مشکلات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ ایک قابل اطمینان حقیقت ہے کہ پاکستان نے ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے کی جو پالیسی اپنائی ہے اس کے دور رس اثرات جلد سامنے آئیں گے اور ان سے دو نوں طرف عوام کی مشکلات کو کم کرنے میں مد دملے گی۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ایم عامر رانا۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)