سیلاب: شعبہئ تعلیم بحالی اور تعمیرنو

درس و تدریس سے جڑے مسائل میں سے بیشتر کا تعلق ترجیحات تعین سے بھی ہے۔ فیصلہ سازوں نے دو سال کی محنت سے ’واحد قومی نصاب‘ لاگو کرنے کی کوشش کی لیکن اِس سے شعبہئ تعلیم کو مدد ملنے سے زیادہ نقصان ہوا۔ کورونا وبا کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی بندش کے اثرات اور تعلیمی سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد طلبہ کا ڈراپ آؤٹ چند ایسے پہلو ہیں جن پر گہرائی سے غور ہونا چاہئے۔لائق توجہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں صرف کھیتی باڑی یا رہائشگاہیں ہی متاثر نہیں ہوئیں بلکہ تعلیمی ادارے بھی بہہ گئے ہیں اور ایسے سبھی تعلیمی اداروں کی بحالی جنہیں بنانے میں پچاس سال سے زائد کا عرصہ لگا تھا شاید مزید کئی دہائیاں لگیں کیونکہ اولین ترجیح زراعت اور زرعی معیشت کی بحالی ہے۔ اب تک حکومت کی جانب سے صرف سیلاب متاثرین کے لئے امداد طلب کی گئی ہے اِس کے بعد عالمی سطح پر بحالی کے لئے امداد طلب کی جائے اور تب تک تعلیمی عمل کے جزوی بحال ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آنے والے دنوں یا ہفتوں میں‘ جیسے جیسے سیلاب کا پانی بتدریج کم ہوتا جائے گا اور ان علاقوں سے اطلاعات موصول ہوں گی جو سیلاب سے زیادہ بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے ہیں لیکن ابھی تک وہ علاقوں ناقابل رسائی ہیں اور جب سیلاب کا پانی اُترنے کے بعد ہلاکتوں اور نقصانات کے اعداد و شمار سامنے آئیں تب اصل صورتحال واضح ہوگی کہ کس قدر بڑا جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔سیلاب سے پنجاب میں 1180سکولوں کو نقصان پہنچا ہے۔ سندھ میں سیلاب زدہ علاقوں میں 23 ہزار 419 سکولوں میں سے 15 ہزار سے زائد (یعنی 69 فیصد) سکولوں کو نقصان پہنچا ہے۔ بلوچستان میں 1677 جبکہ خیبرپختونخوا میں 1024 سکولز سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر سیلاب سے 19 ہزار 723 تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا جبکہ ساڑھے پانچ ہزار سکولوں کی عمارتوں کو سیلاب متاثرین کی عارضی قیام گاہوں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ تعلیمی اداروں کی یہ تعداد صرف سرکاری سکولوں کی ہے جبکہ نجی‘ کمیونٹی اور مدرسہ سکولوں کی بڑی تعداد بھی متاثر ہوئی ہے اور تخمینہ ہے کہ ملک بھر میں مجموعی طور پر 50 ہزار سکولز متاثر ہیں! یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ تاحال سیلاب سے متاثرہ کئی علاقے ناقابل رسائی ہیں جن میں خیبرپختونخوا کے اضلاع سوات‘ چترال اور کوہستان کے کچھ حصوں سے زمینی اور مواصلاتی رابطہ منقطع ہے۔ سندھ میں پانی مکمل طور پر کم نہیں ہوا‘ جہاں بارشوں کا ایک اور سلسلہ متوقع ہے اس لئے نقصان کا پورا پیمانہ اور تعمیر نو کی لاگت کا تخمینہ بڑھنے کی توقع ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر پہلے ہی تعلیم کا نظام خلل کا شکار ہے اور بار بار امتحانات ملتوی کرنے پڑے ہیں لیکن اِس مرتبہ چونکہ تعلیمی اداروں کی عمارتیں ہی قابل استعمال نہیں رہیں تو اندیشہ ہے کہ کئی تعلیمی سال بحالی کے عمل کی نذر ہو جائیں۔ جن علاقوں میں سکول متاثر نہیں ہوئے وہاں سکولوں تک پہنچنے کے لئے درکار بنیادی ڈھانچہ (یعنی سڑکیں اور پل) بہہ گئے ہیں۔ جو گھرانوں سیلاب سے متاثر ہیں اُن کے لئے روزی روٹی جیسی بنیادی ضرورت اہم ترجیح ہے اور یہی وجہ ہے کہ رواں سال سرکاری سکولوں سے نکالے جانے والے طلبہ کی شرح زیادہ رہنے کے اندیشے کا اظہار کیا جا رہا ہے جو اپنی جگہ بڑا نقصان ہے کیونکہ پاکستان میں پہلے ہی 2 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے استفادہ نہیں کر رہے اور سرکاری و غیرسرکاری الگ الگ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد قریب تیس لاکھ ہے۔ سیلاب سے متاثر ہونے والی دیگر تعلیمی سہولیات میں کالجز‘ تکنیکی پیشہ ورانہ تربیت کے ادارے اور جامعات (یونیورسٹیاں) شامل ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سوات یونیورسٹی کا کیمپس زیر آب آیا ہے۔ زرعی یونیورسٹیاں جو فصلوں‘ لائیو سٹاک اور وٹرنری سائنس کے شعبوں میں تحقیق اور تجربات کرتی ہیں‘ وہ بھی بند پڑی ہیں۔ سکولوں کی طرح‘ جامعات کا بنیادی ڈھانچہ بھی کئی جگہوں پر سیلاب سے متاثرین کے لئے عارضی و ہنگامی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہو رہا ہے اور جب تک سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی نہیں ہو جاتی اُس وقت تک سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قیام پذیر سیلاب متاثرین کو نکالا نہیں جا سکتا۔ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو آنے والے مہینوں اور سالوں میں موجودہ بحران سے نمٹنا ممکن ہو سکتا ہے لیکن اگر نقصانات کے بارے میں روایتی تصور کو تبدیل کیا جائے جو صرف مالی نقصانات تک محدود رہتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سیلاب سے شعبہئ تعلیم کو پہنچنے والے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 12.5ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان ’موسمیاتی تبدیلیوں‘ کا شکار ہونے والا خطے کا پہلا ملک ہے اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ مستقبل میں مزید ایسے موسمیاتی سانحات رونما ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ماضی سے مختلف ایک بالکل الگ لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور ایسے بلند علاقوں کی تلاش کرنی ہے یا بند باندھ کر اور آبی ذخائر کی تعمیر کر کے ایسے علاقے تخلیق کرنے ہیں جو مستقبل کے ممکنہ سیلابوں سے محفوظ رہ سکیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا مطلب ہے کہ مستقبل میں مزید ایسے واقعات رونما ہوں گے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)