موسمیاتی خطرات: ماحولیاتی سفارتکاری

نئی نسل کی اکثریت کیلئے سیلاب کی تباہ کاریاں اور ہولناکی ناقابل یقین ہے یہ تحریر لکھنے کے وقت‘ پاکستان کی ایک تہائی آبادی زیر آب ہے یعنی 3 کروڑ 30 لاکھ (33ملین)لوگ بری طرح متاثر ہیں تاہم اعدادوشمار تباہی کے پورے منظرنامے کو پیش نہیں کر سکتے‘ کہا جا رہا ہے کہ 400 بچوں سمیت 1300 سے زائد افراد  موت کے منہ میں جا چکے ہیں‘گیارہ لاکھ (1.1ملین) مویشی مر چکے ہیں اور لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بہہ گئی ہیں آخری بار پاکستان کو سال 2010ء میں اِس قسم کا نقصان ہوا تھا۔ ورلڈ بینک کے جائزے کے مطابق ”سپر فلڈ“ سے پاکستان میں تقریباً 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا جبکہ اِس مرتبہ صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ سنگین اور زیادہ خوفناک دکھائی دے رہی ہے‘ اس بار معاشی نقصان پندرہ ارب ڈالر کے قریب ہیں‘ یہ تباہی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک پہلے ہی مہنگائی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ سیلاب کی تباہی کی صرف ایک ہی وضاحت دی جاتی ہے اور وہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی‘ غیرمعمولی طور پر زیادہ مون سون بارشیں واضح طور پر موسمیاتی خطرات کی وجہ سے ہیں‘ پاکستان موسم سرما سے موسم گرما کی طرف تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور یہ تبدیلی اچانک رونما ہوئی ہے اور اب عملی طور پر بہار کا موسم نہیں رہا رواں برس مارچ‘ اپریل اور مئی کے مہینوں میں درجہ حرارت میں چار گنا اضافے سے موسم گرما کے اثرات میں اضافہ ہوا‘ جنگل میں آگ لگنے کی خبر آئی اور ماہرین نے خشک سالی اور خشک موسم کی پیش گوئی کی‘ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ہم موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے حوالے سے آٹھویں نمبر پر ہیں‘ ہم معاشی طور پر طاقتور ممالک کی ماحول دشمنی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور اِس میں ہماری کوئی غلطی نہیں جیسا کہ اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل نے حال ہی میں اپیل کے اجرأ کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ پاکستان ”تکلیف میں ڈوبا ہوا ہے“ انہوں نے کہا کہ ”آج پاکستان سیلاب کی صورت جو تباہی دیکھ رہا ہے کل کوئی دوسرا ملک اِس کی جگہ ہوسکتا ہے“ پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا اُن کا دورہ یقینا عالمی سطح پر صورتحال کو اجاگر کرے گا کیونکہ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور دیگر جگہوں پر لوگوں کو بڑے پیمانے پر مشکلات کا سامنا ہے‘پاکستان جغرافیائی ہاٹ سپاٹ میں سے ایک پر واقع ہے جو موسمیاتی اثرات سے پندرہ گنا زیادہ متاثر ہوتا ہے جیسا کہ حالیہ سیلاب نے ثابت کیا ہے‘ ہم تیزی سے آنیوالی آب و ہوا کی تباہی کے دھانے پر ہیں‘ پاکستان بھی دنیا کے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو دو بڑے موسمیاتی نظاموں کی زد میں ہے‘ ایک اعلیٰ درجہ حرارت اور خشک سالی کا ذمہ دار ہے اور دوسرا مون سون کی بارشیں لاتا ہے اگرچہ مون سون کی بارشوں کی شدت میں اضافے اور پیٹرن کو تبدیل کرنے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے کردار کو اچھی طرح سے دستاویزی شکل دی گئی ہے‘ پاکستان کو بے پناہ گلیشیئرز کی صورت میں ایک اور مشکل چیلنج کا سامنا ہے‘ جو ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مہلک اثرات سے اور بھی زیادہ خطرے میں ڈالے ہوئے ہے‘ پاکستان کا شمالی علاقہ یعنی خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان 7200 برفانی تودوں (گلیشیئرز) کا گھر ہے‘ جنہیں دنیا کا ”تیسرا قطب“ بھی کہا جاتا ہے گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیئرز والے علاقوں میں درجہ حرارت میں اضافہ کا شاخسانہ یہ ہے کہ برف پگھل رہی ہے جس سے 33جھیلیں بن گئی ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ برفانی تودے اچانک پھٹنے کا خطرہ بھی ہے‘ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے بالائی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی‘خشک سالی اور مون سون کی شدید بارشوں کا خطرہ درحقیقت موسمیاتی تبدیلی کا کیا دھرا ہے۔ ترقی پذیر دنیا بالخصوص پاکستان کیلئے وقت آ گیا ہے کہ وہ اِس خطرے کو خطرہ کہے اور صنعتی ممالک کی ناراضگی کے خوف سے اِس حقیقت کو نہیں چھپانا چاہئے کہ دنیا موسمیاتی خطرے سے دوچار ہو چکی ہے‘ وہ صنعتی ممالک جنہوں نے ماحول کی پرواہ نہیں کی‘ اب وقت ہے کہ اُن سے سوال کیا جائے اور اِس صورتحال میں گلوبل ساؤتھ کے ممالک خود کو‘ گلوبل نارتھ کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں‘ اگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ دنیا کے اقدامات اور پالیسیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے تو نقصان بھی صرف ہمارا نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیاں ان ممالک کو بھی متاثر اور پریشان کریں گی جو فی الوقت  خود کو محفوظ تصور کر رہے ہیں‘ دیوانہ وار مادی ترقی جس میں ماحول کا خیال نہیں رکھا جاتا ایسے ترقیاتی تصور پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ دنیا میں ترقی کا ماڈل ایسا ہونا چاہئے جو ہر کسی کے لئے یکساں سلامتی کا باعث ہو۔ دنیا کو ترقی کی اخلاقی بنیادیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے‘گزشتہ سال گلاسگو میں ہونے والی کانفرنس آف پارٹیز (COP26) میں دنیا نے جس چیز پر اتفاق کیا وہ بدترین شکل میں ظہور پذیر ہوا ہے اور اِس نے پوری دنیا کو خطرے سے دوچار کیا ہے‘ جس بارے میں سنجیدگی سے بات چیت ہونی چاہئے اور دنیا میں موسمیاتی خطرات کا مل جل کر مقابلہ کرنے کی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے‘ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی خطرات کا سامنا کرنیوالے ممالک کی مدد کیلئے ’موسمیاتی نقصانات کا فنڈ‘ قائم کرتے ہوئے اپنے عزم پر پورا اُترنا چاہئے‘رواں برس کے آخر میں مصر میں COP27 منعقد ہونے سے پہلے‘ ماحولیاتی خطرات کو عالمی خطرات کے طور پر دیکھتے ہوئے اِس بارے میں اجلاس کا ایجنڈا مرتب کرنا چاہئے اِس سلسلے میں پاکستان دنیا پر زور دے سکتا ہے کہ اُس کی مثال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ماحولیاتی خطرے سے نمٹنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیا جائے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو نہ صرف موسمیاتی تخفیف میں بلکہ زیادہ نمایاں طور پر موسمیاتی موافقت میں مدد کی ضرورت ہے اور پاکستان کو لاحق خطرات کی نوعیت کا جواب دینے کیلئے بھی قومی صلاحیت سازی کے حوالے سے غوروخوض ہونا چاہئے۔ ’ماحولیاتی انصاف اور آب و ہوا کی مساوات‘ کے نظریات کو گلوبل نارتھ اور گلوبل ساؤتھ کے درمیان تعاون کے نئے فریم ورک کیلئے تعمیراتی بلاک بننا چاہیے‘ COP27 میں پاکستان 77 ترقی پذیر ممالک کے سامنے ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونیوالی مشکلات و خطرات رکھ سکتا ہے‘دنیا کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی رونما ہونیوالے واقعات جیسا کہ سیلاب‘ جنگلات کی آگ اور خشک سالی سے کہیں زیادہ ہیں‘ پاکستان کی آب و ہوا کے خطرے کا براہ راست تعلق غربت سے بھی ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیاں اور غربت دونوں ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں‘ آب و ہوا سے پیدا ہونیوالی تباہی کا مطلب صرف جانوں اور معاش کا نقصان ہی نہیں بلکہ انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات‘ مزید عدم مساوات اور اشیاء کی قیمتوں میں اضافے (مہنگائی) سے اربوں ڈالر کا نقصان بھی ہے۔پاکستان کو موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے ’ماحولیاتی سفارت کاری‘ کا آغاز کرنا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: امانت علی چوہدری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)