پاکستان کے چاروں صوبوں میں طوفانی بارشوں اور اِس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے جس بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے‘ اِس سے حاصل اسباق پر اگر غور نہ کیا گیا تو سیلاب کی تباہ کاریاں جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں‘ پہلے سے زیادہ شدت سے آتی رہیں گی۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کے اگلے پچاس سالوں پر نظر رکھنی ہوگی اور اِس کے اثرات پر دوبارہ سے غور کرنا چاہئے۔ موسمیاتی آفات کی شدت میں اضافے کے ساتھ‘ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو پالیسی سازی میں سرفہرست رکھنے کی ضرورت ہے۔ ناقص ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے تباہ کن اثرات پاکستان بھر میں بار بار دیکھے جا سکتے ہیں بالخصوص صوبہ سندھ میں یہ نقصانات زیادہ ہوں گے کیونکہ دیگر تین صوبوں سے پانی یہیں سے گزر کر سمندر میں گرتا ہے۔ سال 2010ء کے سیلاب کے دوران سندھ کے صرف دو قصبے (خیرپور ناتھن شاہ اور گڑھی خیرو) زیر آب آئے تھے۔ ان علاقوں میں سیلاب متاثرین کو جدید سہولیات کے ساتھ معاوضہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جس میں ان لوگوں کے لئے نئے رہائشی ڈھانچے (گھر) بھی شامل تھے لیکن یہ وعدے پورے نہیں کئے گئے اور سیلاب متاثرین کے لئے آنے والی بیرونی امداد بھی تمام متاثرین تک نہیں پہنچ سکی۔ جب بھی سیلاب آتا ہے اِس سے زراعت اور چھوٹے کاروبار متاثر ہوتے ہیں لیکن اِن دونوں شعبوں کا بیمہ نہیں کیا جاتا تاکہ نقصانات کا ازالہ کرتے ہوئے قومی خزانے پر کم سے کم بوجھ پڑے۔
اگر حکومت فصلوں اور چھوٹے کاروبار کا بیمہ قومی خزانے سے ادا کرے تو یہ سیلاب متاثرین کی امداد کا زیادہ مؤثر اور کم خرچ ہوگا۔ دوسری طرف بار بار سیلاب سے متاثر ہونے والوں کو تسلی دی جا سکتی ہے کہ وہ کسی بھی صورت حکومت پر سے اعتماد نہ کھویں۔ ماضی میں سیلاب متاثرین سے جو وعدے ہوئے اگر وہ پورے کئے گئے ہوتے تو آج عوام کے اعتماد کی صورتحال قطعی مختلف ہوتی۔ اگست دوہزاربائیس کی مون سون بارشوں سے نقصانات کم ہو سکتے تھے اگر پاکستان کے پاس جدید موسمیاتی پیشگوئی کرنے والے آلات ہوتے جن کے ذریعے بارشوں کی شدت کا قبل از وقت درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان طریقوں سے سندھ کے مخصوص جغرافیائی مقامات کے لئے پانی کی تخمینی مقدار معلوم ہو سکتی تھی۔ کون اِس ضرورت کو سمجھے گا کہ بارش کے پانی سے متعلق جدید معلومات آفات سے بہتر انداز میں نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں لیکن سندھ حکومت نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ بارش کے پانی کو تباہ کن نقصان پہنچانے سے روکنے کے لئے ضروری اقدامات کی بجائے ذرائع ابلاغ پر متاثرین سیلاب کی مدد کے بلند بانگ دعوے کئے گئے اور ایک ایسی صورت میں جبکہ عوام اور سندھ کی سیاسی قیادت کے درمیان پہلے ہی سے عدم اعتماد پایا جاتا ہے۔ کوئی بھی ایسی کوشش جو سیلاب متاثرین کی بجائے صرف ’ووٹ بینک‘ بچانے کے لئے کی جا رہی ہو‘ کافی نہیں ہوسکتی۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ سندھ حکومت کو سیلاب اور مون سون بارشوں کے باقی ماندہ سلسلے سے زیادہ ضمنی انتخابات کی فکر رہی اور اِس سلسلے میں حکومت سندھ سے قومی و صوبائی نشستوں کی سیاست پر زیادہ توجہ مرکوز کئے دکھائی دی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے جن ماہرین کی تعریف کی گئی ان کے پاس سیلاب زدہ شہروں کے لئے انخلأ کی تیاری اور آلات نہیں تھے۔ حقائق سے آگاہی کا فقدان بھی ایک الگ مسئلہ رہا ہے۔ صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) کو سندھ کے سیلاب زدہ شہروں یا علاقوں سے ممکنہ انخلأ کے لئے منصوبے تیار کرنے تھے جن پر اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں نے عمل درآمد کرنا تھا لیکن یہ سب اقدامات باتوں ہی باتوں میں ہوتے رہے اور حقیقت حال یہ تھی جس کا اعتراف نہیں کیا گیا کہ حکومتی اداروں کے پاس سیلاب متاثرین کی بڑے پیمانے پر انخلأ کا کوئی خاص منصوبہ ہی نہیں تھا اور محکمہ آبپاشی کی طرف سے سیلاب کے راستوں کے لئے بنائے گئے نقشے بھی ضرورت پڑنے پر گمراہ کن اور غلط ثابت ہوئے۔
سندھ میں دریاؤں اور نالوں کی بھل صفائی کے لئے ہر سال اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور یہ اربوں روپے کہاں خرچ ہوتے ہیں پوری دنیا کو اِس کا علم ہو چکا ہے! سندھ کا ایک بڑا حصہ زیر آب ہے لیکن اندرون سندھ سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں رہنے والوں کی حالت زار سے یا تو بے خبر ہیں یا پھر عوام کو سیلابی پانی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم اے کے نگران کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ پروٹوکول مربوط کرنے اور سرکاری وسائل متحرک کرنے کا بھی انچارج ہونا چاہئے اور ڈپٹی کمشنروں کو ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی سربراہی کرنی چاہئے لیکن بدقسمتی سے بیوروکریسی کی اپنی ہی شاہانہ سوچ ہے اور سندھ کے لوگوں کو سیلاب سے متعلق اس وقت تک اندھیرے میں رکھا گیا جب تک کہ سیلابی پانی ان کے گھروں میں داخل نہیں ہو گیا اور تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ جس وقت پانی خیبرپختونخوا سے سندھ کی طرف بڑھ رہا تھا تو حکومت کے پاس کم سے کم تین دن کا وقت تھا اور اِس تین دن میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لئے اگر دن رات کام کیا جاتا تو تین دن چھ دن بن جاتے اور سیلاب سے ہوئے نقصانات کی صورتحال قطعی مختلف ہوتی! سیلابی پانی کی سطح سندھ کے میدانی علاقوں میں چار سے چھ میٹر اونچائی تک جا پہنچی تو کئی شہروں کی چالیس سے پچاس فیصد آبادی ہر طرف پانی میں پھنس کر رہ گئی۔ بیمار اور بوڑھے‘ عورتیں بچے اور نوجوان ایک ہی امید کے سہارے زندہ تھے کہ حکومت کی طرف سے انہیں نکالا جائے گا لیکن امیدیں ٹوٹ گئیں‘ سرکاری امداد اب افسانہ بن چکا ہے۔ انخلأ کا عمل دوستوں اور خاندان کے افراد کی مدد سے اب بھی جاری ہے جس میں حکومت کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیلاب کا یہ دوسرا موقع ہے جس کی وجہ سے اندرون سندھ کے عوام اِس بُری طرح متاثر ہوئے ہیں اور ایک عام متاثرہ آدمی یہ بات ماننے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں کہ وہ قدرتی آفت کا شکار ہوا ہے بلکہ سیلاب متاثرین کی اکثریت اِس بات کا یقین رکھتی ہے کہ انہیں سیلاب سے بچانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی اور اِس کی کئی ایک وجوہات میں یہ بات بھی ہوسکتی ہے کہ زیادہ بڑی تباہی و بربادی کی صورت زیادہ بڑے پیمانے پر غیرملکی مالی و اسباب کی صورت امداد آئے گی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر رفیق چانڈیو۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)