گزشتہ دو برسوں کے دوران کورونا وباء کی وجہ سے دنیا بھر میں سکول‘ کالج اور جامعات (یونیورسٹیاں) بند کی گئیں اس عرصے میں اعلیٰ معیار کی فاصلاتی تعلیم کی اہمیت اور اِس کے لامحدود امکانات پر بھی توجہ دی گئی۔ پچھلے دو سال میں‘ گھر سے مطالعہ کا رجحان دونوں لائیو انٹرایکٹو لیکچرز اور ریکارڈ شدہ ویڈیو لیکچرز کے ذریعے ایک معمول بن گیا ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے دستیاب ہیں لیکن کبھی بھی وسیع پیمانے پر استعمال نہیں ہوئے۔ راقم الحروف کو جب سال دوہزار سے دوہزارآٹھ کے دوران وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور بعد میں بطور ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے بانی چیئرپرسن ہونے کا موقع ملا تو پاکستان جیسے محدود وسائل والے ملک میں فاصلاتی تعلیم کی اہمیت کا احساس ہوا۔ اس لئے ورچوئل یونیورسٹی قائم کی گئی جس کا صدر دفتر لاہور میں ہے تاکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لئے معیاری فاصلاتی تعلیم فراہم کی جا سکے۔ ہم نے خلاء میں 38ڈگری مشرق میں ایک سیٹلائٹ بھی رکھا اور فاصلاتی تعلیم کی سہولت کے لئے یونیورسٹی کو ایک ٹرانسپونڈر دستیاب کرایا۔
ایم آئی ٹی سے اجازت حاصل کرنے کے بعد‘ ہم نے پاکستان میں نصاب کی ایک ویب سائٹ بنائی اور اسے ملک کے تعلیمی اداروں تک مفت اور آسان رسائی فراہم کی۔ ایک اہم اقدام میں‘ تمام ایم آئی ٹی کمپیوٹر سائنس کورسز کی جانچ پڑتال کی گئی اور اِس میں حسب ضرورت ترمیم کی گئی۔ دس ہزار سی ڈیز بنائی گئیں اور ورچوئل یونیورسٹی کے ریکٹر پروفیسر نوید ملک کی مہربان کوششوں سے یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس کے تمام شعبہ جات میں اِنہیں مفت تقسیم کیا گیا جو پاکستان میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم کے فروغ میں ایک اہم و تاریخی پیشرفت ہے اور یوں پاکستان ’ایم آئی ٹی‘ کو استعمال کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔ جب میں وفاقی وزیر اطلاعات و ٹیلی کمیونیکیشن ڈویژن کا سربراہ تھا تو ایک بین الاقوامی کانفرنس میں انٹیل کے سربراہ (چیف ایگزیکٹو آفیسر) سے ملنے ہانگ کانگ گیا اور انہیں پاکستان کے ستر اضلاع میں پچیس ہزار سکولوں کے اساتذہ کو مفت تربیت دینے پر آمادہ کیا۔
ان طلبہ کو اکیڈمی کورسز تک بھی رسائی دی گئی۔ انٹیل نے پاکستان کے تمام بڑے ہوائی اڈوں پر انٹرنیٹ کیوسک مفت نصب کئے‘ یہ ایسی سہولت تھی جو زیادہ تر یورپی اور امریکی ہوائی اڈوں پر دستیاب نہیں تھی۔ یہ بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن کورسز اب امریکہ‘ یورپ و آسٹریلیا کی سینکڑوں اعلیٰ یونیورسٹیاں پیش کر رہے ہیں اور فاصلاتی تعلیم کے ذریعے معیاری تعلیم فراہم کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر استعمال ہو رہے ہیں۔ سٹینفورڈ‘ ہارورڈ‘ ییل‘ کیلی فورنیا یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیاں دسیوں ہزار ایسے کورسز پیش کرتی ہیں، جن میں سے بہت سے ”ویڈیو لیکچرز ڈاٹ نیٹ“ نامی ویب سائٹ پر دیکھے اور بلاقیمت (مفت) حاصل (ڈاؤن) بھی کئے جا سکتے ہیں۔ اِسی طرح ”فیوچر لرن“ نامی ادارہ برطانیہ کے شہر لندن میں قائم ہے اور یہ ایک ڈیجیٹل تعلیمی پلیٹ فارم ہے جسے دسمبر 2012ء میں اوپن یونیورسٹی اور SEEK لمیٹڈ نے قائم کیا تھا۔
اس میں اب برطانیہ سے قریب دوسو اور بین الاقوامی شراکت دار شامل ہیں جو انگریزی‘ فرانسیسی‘ ڈچ‘ ہسپانوی اور چینی زبانوں میں کئی شعبوں میں ہزاروں کورسز پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح، اُڈیمے مئی 2010ء میں قائم کیا گیا‘ ایک امریکی آن لائن لرننگ پلیٹ فارم ہے جو باون ملین طلبہ کو ایک لاکھ چھیانوے ہزار کورسز پیش کرتا ہے جس میں 68ہزار انسٹرکٹرز 75 سے زیادہ زبانوں میں تعلیم دیتے ہیں۔ آن لائن کورسز سے 71 کڑوڑ 20 لاکھ سے زیادہ افراد فائدہ اُٹھا چکے ہیں۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ذریعہ قائم کردہ کورسیرا کے 9 کروڑ 20 لاکھ (بانوے ملین) صارفین ہیں جن میں تقریباً ڈیڑھ سو یونیورسٹیاں اس پلیٹ فارم پر تقریباً چار ہزار کورسز پیش کرتی ہیں۔ خان اکیڈمی کی بنیاد سلمان خان نے 2008ء میں رکھی تھی۔
یہ امریکہ میں قائم کمپنی ہے جو مفت سکول اور کالج کی سطح کی مشقیں‘ تدریسی ویڈیوز اور ذاتی نوعیت کا سیکھنے کا ڈیش بورڈ پیش کرتی ہے۔ اس کے تقریباً 8 کروڑ (80ملین) صارفین ہیں اور یوٹیوب پر اس کی ویڈیوز کو تقریباً دو ارب سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ بلال مشرف کی یادگار کاوشوں سے خان اکیڈمی کے تقریباً تین ہزار کورسز کا اردو میں ترجمہ بھی کیا جا چکا ہے اور وہ اب خان اکیڈمی کی ویب سائٹ کے علاؤہ دیگر ویب سائٹس پر بھی دستیاب ہیں۔ جو ہم نے کراچی یونیورسٹی میں انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کے اندر واقع لطیف ابراہیم جمال سائنس انفارمیشن سینٹر میں بنائی ہے۔ یہ دلچسپ پیشرفت ہے اور دنیا میں کہیں سے بھی طالب علموں کو بغیر رجسٹریشن یا کسی پیشگی ادائیگی کے دسیوں ہزار بہترین کورسز سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اِن مفت کورسز نے پاکستان کا ایک مثبت بین الاقوامی امیج بنایا ہے۔ ”آئی سی سی بی ایس“ کو کئی بین الاقوامی اداروں بشمول یونیسکو‘ ڈبلیو ایچ او‘ ورلڈ اکیڈمی آف سائنس (اٹلی)‘ کام سیٹس اور ’او آئی سی‘ کے ذریعہ ایک مرکز بنایا گیا ہے۔ اس ادارے میں ہر سال سینکڑوں غیر ملکی سائنسدان آتے ہیں اور اس کے فیکلٹی ممبران کو اب تک اُنیس سول ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔فاصلاتی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے ”ہائر ایجوکیشن کمیشن“ اب منتخب جامعات میں معیاری فاصلاتی تعلیم متعارف کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور اس پر عمل درآمد کیلئے ”فاصلاتی تعلیم پالیسی“ بھی تیار کی گئی ہے۔
اس پالیسی کے مطابق‘ فاصلاتی تعلیم کی پیشکش کرنے والی یونیورسٹیوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ پہلے ایک مضبوط لرننگ مینجمنٹ سسٹم کو نافذ کریں جو کورس کے مواد کو پیش کرنے کے قابل ہو اور سوال و جواب کے سیشنز کیلئے مناسب و منظم طریقہ کار کے ذریعے طالب علموں اور استاد کے درمیان مؤثر رابطہ کاری یقینی بنائی جائے۔ ہوم ورک اسائنمنٹس کی درجہ بندی اور فیڈ بیک پر بھی توجہ دی جائے۔ پیش کردہ کورسز کے معیار‘ انٹرنیٹ بینڈوڈتھ وغیرہ کے حوالے سے دیگر ضروریات کی تفصیلات کا احاطہ بھی اِسی کے ذریعے کیا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں میں فاصلاتی تعلیم کو فروغ دینے کیلئے ٹیکنالوجی سے چلنے والی نالج اکانومی ٹاسک فورس‘ جس کا راقم الحروف وائس چیئرمین تھا۔
نے ورچوئل یونیورسٹی کیلئے چھ ارب روپے کے منصوبے منظور کئے۔ یہ فی الحال زیر عمل منصوبہ (حکمت عملی) ہے اور یہ پاکستان میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کیلئے مربوط نظام تعلیم متعارف کرانے کا ایک شاندار موقع فراہم کرے گا جس کے ذریعے ہمارے طلبہ نہ صرف ملکی بلکہ دنیا کی اعلیٰ جامعات کے فیکلٹی ممبران کی خدمات سے بھی مستفید ہو سکیں گے۔ (مضمون نگار سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی و سابق چیئرمین ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)