گلگت بلتستان اقتصادی منظرنامہ

گلگت بلتستان میں اقتصادی تبدیلیوں کا منظرنامہ لائق توجہ ہے جہاں مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت اور ایک نہایت ہی منظم انداز میں قومی ترقی کے حصہ دار ہیں قابل ذکر ہے کہ گلگت میں کمیونٹی تنظیموں نے بہت کم لاگت پر پل‘ آبپاشی کے راستے اور دیگر چھوٹے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بنائے ہیں کیونکہ انہوں نے ان منصوبوں کیلئے مزدوری اور زمین کی فراہمی میں بھی حصہ لیا ہے‘ ترغیبی اور تعمیری سوچ نے انہیں یہ احساس دلایا کہ اگر وہ اپنی مدد آپ کے تحت قومی ترقی کا حصہ بنتے ہیں تو اس سے اُن کی فارم کی آمدنی دگنی ہو جائے گی بہتر سڑکوں اور پلوں کے ذریعے پیداوار کی بہتر مارکیٹنگ نے کھیتوں کی آمدنی میں اضافہ کیا ہے اور غذائی تحفظ بھی ممکن بنانے میں مدد ملی ہے یہ کمیونٹی تنظیمیں سماجی اشارئیوں کو بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہیں جیسے کہ تعلیمی اداروں میں داخلہ‘ طلبہ کی تعلیم سے وابستگی‘ غذائیت‘ صاف پانی کی فراہمی اور صفائی ستھرائی جو پاکستان کے دیگر صوبوں سے نسبت گلگت بلتستان میں زیادہ بہتر نظر آتی ہے دیگر ترقیاتی شراکت داروں جیسے کہ پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ نے بھی اِس سلسلے میں گرانقدر اقدامات کئے ہیں اور کسانوں کو مالیاتی امور اور تربیتی امور میں مدد و رہنمائی فراہم کی ہے جبکہ چھوٹے کسانوں اور چھوٹے کاروباروں کو چھوٹے قرضے فراہم کئے گئے ہیں حالیہ چند برس میں‘ دیہی آبادی کی مدد کیلئے ایک بڑی معاونت انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچر ڈویلپمنٹ کی جانب سے سامنے آئی ہے جس کا منصوبہ (لائحہ عمل) سال دوہزارپندرہ میں منظور کیا گیا تھا اور جو ایک سو بیس ملین ڈالر کی کل لاگت سے دس سال تک چلے گا‘ پراجیکٹ اکنامک ٹرانسفارمیشن انیشی ایٹو گلگت بلتستان تقریباً ایک لاکھ دیہی گھرانوں کی مدد کر رہا ہے اور اِس سے زرعی پیداوار میں اضافہ بھی ہو رہا ہے‘ اِس حکمت عملی کے تحت زیادہ قیمت والی نقد فصلیں متعارف کرا رہا ہے اور کسانوں کو مقامی منڈیوں سے جوڑ رہا ہے‘ کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ وہ خوبانی کی زیادہ پیداوار سے اپنی فصل کے انداز کو متنوع بنائیں جو کہ بڑی حد تک ضائع ہو جاتی ہے آلو اس علاقے میں اگائی جانیوالی دوسری بڑی فصل ہے‘ اس منصوبے کے تحت اُنچاس ایکڑ بنجر زمین کو برف پگھلنے سے پانی فراہم کیا گیا، پچاس چینلز کی تعمیر سے بیس ہزار ایکڑ اراضی کو سیراب کیا گیا‘تقریباً چارسواَسی کلومیٹر سڑک زیر تعمیر ہے‘ پچاس گھرانوں پر محیط زرعی کوآپریٹیو باڈیز تشکیل دی گئی ہیں جیسے جیسے آبپاشی کے راستے اور دیہی سڑکیں تیار اور بہتر ہو رہی ہیں‘ گلگت بلتستان کے دیہات میں کسان تنظیموں کے اراکین‘ جن میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں‘ منجمد سبزیوں کی فروخت کر رہی ہیں اُنہیں مطلوبہ کولڈ چین‘ ریفریجریٹڈ وین اور پروسیسنگ کی سہولیات پر اخراجات کے بعد بھی اسلام آباد میں ان سبزیوں کو صارفین تک پہنچانے کے انتظامات کئے گئے ہیں اور ایسا کرنے سے جو سبزی حاصل ہوئی ہے وہ درآمدی سبزی کی نسبت قیمت میں نسبتا کم ہے‘اس طرح کے کاروباری امکانات میں نجی شعبہ حصہ لے سکتا ہے اور بڑھ سکتا ہے اور اس مخصوص تجویز کی تکنیکی فزیبلٹی اور اقتصادی قابل عملیت کا مطالعہ کرسکتا ہے جس کی نشاندہی کمیونٹی کے اراکین نے خود اپنے علم کی بنیاد پر کی ہے‘سہ فریقی تعاون کا یہ ماڈل کمیونٹیز کو متحرک کرنے اور تکنیکی مدد فراہم کرنیوالی این جی اوز اور حکومت مالی وسائل فراہم کر رہی ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر جو کہ فروخت کی سرگرمیوں کا حصہ ہے‘ کئی ایسے غریب ممالک میں کامیابی کے ساتھ نافذ کیا گیا ہے جہاں پسماندہ زرعی کمیونٹیز سخت حالات سے دوچار ہیں اس صوبے کے مستقبل پر اثرات کیا ہوں گے اور اِس سے معاشی امکانات کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ کم از کم چار شعبے ایسے ہیں جن سے بہتری ممکن ہے۔ اِن میں زراعت‘ ماحولیاتی بہتری‘ ثقافتی سیاحت‘ بجلی کی پیداوار اور تقسیم‘ اور انسانی وسائل کی ترقی شامل ہیں‘ گلگت بلتستان بنیادی طور پر ایک دیہی معاشرہ ہے جس کی آبادی تقریباً سات سو دیہات پر مشتمل ہے‘ چھوٹے مالکان کا زراعت بنیادی پیشہ ہے اور آبادی وسیع پہاڑی خطوں سے زیادہ ہے‘ زیادہ تر کاشتکاری تین ہزار میٹر کی بلندی پر ہوتی ہے‘ اس پہاڑی ماحولیاتی نظام میں رینج لینڈز استعمال ہوتی ہیں‘ اس علاقے کی ایک الگ خصوصیت یہ ہے کہ یہاں زمین کی منصفانہ تقسیم ہے اور تقریباً نوے فیصد گھرانوں کے پاس زرعی اراضی ہے چونکہ زمین کی ملکیت (ہولڈنگز) چھوٹی ہیں جس کے نتیجے میں ہر گھرانے کی آمدنی کم ہے وہ گائے‘ بھیڑ‘ بکریوں کے مالک بھی ہیں جو ان کی نقد آمدنی کو پورا کرتے ہیں گلگت بلتستان میں روایتی فصلوں سے غذائی ضروریات پورا کرنے کیلئے زیادہ قیمت والی فصلوں کی کاشت کی جا رہی ہے جو ایک حوصلہ افزأ رجحان ہے اور موسم گرما میں خطے کے زرعی ماحولیاتی حالات کے تحت جو سبزی اگائی جاتی ہے وہ غیر موسمی ضروریات پورا کرنے کیلئے بھی فروخت میں لائی جا سکتی ہیں تاہم اِس قسم کی زراعت کی توسیع کیلئے آبپاشی کے ذرائع‘ بہتر بیج‘ کریڈٹ اور مارکیٹوں سے فزیکل اور ڈیجیٹل دونوں طرح کے رابطے کی ضرورت ہوگی‘ گلگت اسلام آباد سے ملحقہ شہروں میں صحت کے بارے میں شعور رکھنے والا شہری اِس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ وہ ایسی زرعی پیداوار خریدیں جو قدرتی نامیاتی طریقے سے اُگائی گئی ہو۔ محکمہ زراعت اور آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک اور سدپارہ ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے ذریعہ تیار کردہ زرعی شعبے پر دوہزاراٹھارہ کے ایک جامع مطالعہ نے ایسا پالیسی فریم ورک مرتب کیا ہے جس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عشرت حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)