نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی نے انڈیکیٹیو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان کا نیا ویژن جاری کیا ہے جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے یہ اگلے دس برس کیلئے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں توسیع کا منصوبہ ہے جو ایک طرح کا رولنگ پلان ہے اور اس پر سالانہ نظر ثانی کی جایا کرے گی‘ نئی حکمت عملی میں پچاس سے پچپن ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ نئی حکمت عملی کا مسودہ تیار کرنے والے ذمہ داروں کے پاس ایک معیاری ماڈل ہے۔ پاکستان کو سیلاب کے بعد کی تعمیر نو کی طرف خاطر خواہ مالیاتی وسائل موڑنا ہوں گے اور قومی ترقیاتی حکمت عملی (پی ایس ڈی پی) پر پابندیاں عائد کرنا ہوں گی۔ اِس صورتحال میں واپڈا کے ہائیڈرو پراجیکٹس شدید دباؤ میں آئیں گے اور اس کے نتیجے میں حقیقی معنوں میں کمی واقع ہو گی اگرچہ غیر واپڈا کے ترقیاتی منصوبوں کو بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن وہ نسبتاً بہتر ہوں گے کیونکہ ان کی مالی اعانت کمرشل فنانسز‘ ایف ڈی آئی اور سالانہ توانائی کی ادائیگیوں کے تحت ہوتی ہے جو طویل دورانئے پر پھیلی ہوئی ہے۔ مذکورہ منصوبے نے سال 2030-31ء اور درمیانی سالوں کیلئے 4.12فیصد‘ 4.87فیصد اور 5.78فیصد کی شرح نمو سے متعلق پیش گوئیاں کی ہیں اور متعلقہ طلب کا تخمینہ بالترتیب 38ہزار 744میگاواٹ‘ 41 ہزار 338 میگاواٹ اور 44 ہزار 668 میگاواٹ لگایا ہے‘
اس منصوبے میں 2031ء تک بجلی کی پیداواری صلاحیت کو 69 ہزار 672 میگاواٹ تک بڑھانے کا بھی ذکر ہے۔ یہ کیسے کیا جائے گا اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بجلی کی موجودہ مجموعی پیداواری صلاحیت 33 ہزار 82میگاواٹ ہے اور اِس پیداواری صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے 14 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا ہو گی‘ دیگر 17 ہزار 182 میگاواٹ کے منصوبوں سے بجلی حاصل کی جائے گی اور باقی ماندہ بجلی جو کہ چار ہزار تین سو بیس میگاواٹ ہے۔ شمسی توانائی (نیٹ میٹرنگ) کے ذریعے سے سسٹم میں آئے گی‘ اِس حکمت عملی (پلان) میں ایک نئی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جو آپٹمائزڈ جنریشن کیپیسیٹی ہے اور اِسے سمجھنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ میری نظر میں‘ تمام منصوبوں کو ’آپٹمائزڈ‘ سمجھا جاتا ہے‘ او جی سی تیس ہزار میگاواٹ کے بدلے سترہ سے اٹھارہ ہزار میگاواٹ کا اضافہ فراہم کرتا ہے‘ او جی سی میں‘ سال دوہزارستائیس تک 990میگاواٹ کے مقامی تھر کول پر مبنی کے ای پلانٹ کے علاوہ کوئلے کی بجلی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اس میں مزید 3 ہزار 461 میگاواٹ کا کم ہائیڈرو اضافہ شامل ہے اور دیگر قابل تجدید ذرائع میں 13 ہزار 278 میگاواٹ‘ شمسی 8 ہزار 350 میگاواٹ اور ہوا 4 ہزار 928 میگاواٹ شامل ہیں۔
اِس سلسلے میں چار منظرنامے تیار کئے گئے ہیں جو جوہری پاور پلانٹ‘ ہائیڈرو‘ شمسی اور ہوا اور تھر کے کوئلے سے بجلی تیار کی جائے گی۔ ملک میں ہائیڈرو پاور کے لئے کافی امکانات موجود ہیں۔ خاص طور پر بھاشا ڈیم جو پانی کا ذخیرہ اور چار ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرے گا تاہم بجلی کی پیداوار سے جڑے کئی مسائل بھی ہیں۔ سال دوہزارتیرہ میں یہاں سرمائے کاری کی لاگت کا تخمینہ چودہ ارب ڈالر تھا۔ اعلی مالیاتی تقاضے اور دس یا اس سے زیادہ سال کے طویل لیڈ ٹائم نے اس کے قابل عمل ہونے پر بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔ دیگر ہائیڈرو پراجیکٹس میں بھی ایسے ہی مسائل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے مسائل‘ جو بارش اور گلیشیئر پگھلنے کے ذریعے پانی کی فراہمی میں بے ضابطگیوں کا باعث بنتے ہیں‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ دوسری طرف ’ایل این جی‘ کی اونچی قیمتوں اور کوئلے کی درآمدی لاگت نے منصوبہ سازوں اور فیصلہ سازوں کو سستے متبادل تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے اور اِس سلسلے میں انہوں نے شمسی اور ہوا کی طاقت سے بجلی کی پیداوار کو بہتر متبادل پایا ہے۔ پاکستان کو توانائی کی نئی پیداواری حکمت عملی بناتے ہوئے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت منصوبوں کو بھی وسعت دینے پر کام کرنا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سیّد افتخار علی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)