یہ سچ ہے کہ مغرب نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا‘ اپنی یقین دہانیوں سے مکر گیا جو سوویت یونین کے خاتمے سے قبل سوویت یونین سے کی گئی تھیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1990ء کی تباہ کن دہائی کے دوران اور اس کے بعد جب روس کو معاشی بدحالی اور اندرونی کشمکش کا سامنا کرنا پڑا تو نیٹو تنظیم کے رکن ممالک نے دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت کو گھیرنے کی کوشش کی لیکن کیا چھوٹی ریاستوں کے خلاف جنگیں چھیڑنا اور ان کے علاقوں کو ضم کرنا ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے؟ کیا ہمسایہ ریاستوں کے رہنماؤں کے دل میں خوف پیدا کرنا دانشمندانہ پالیسی ہے؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جو روس سے ہمدردی رکھنے والے تجزیہ کار اٹھا رہے ہیں۔ وہ ماسکو سے متفق ہیں کہ مغرب قابل اعتبار نہیں ہے لیکن وہ کریملن کی اس دلیل سے اتفاق کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ اسے چھوٹے ممالک پر حملہ آور ہونے‘ اُن کے علاقے چھیننے اور انہیں زبردستی روسی فیڈریشن میں شامل کرنے کا حق ہے۔ اس طرح کا نقطہ نظر یہ تاثر پیدا کر رہا ہے کہ روس ایک بار پھر غیر جانبدار ہوتا جا رہا ہے اور چھوٹی ریاستوں میں خوف پیدا کر رہا ہے جو برسوں سے پرامن تھیں۔
مثال کے طور پر‘ یوکرین پر روس کے حملے پر سویڈن‘ فن لینڈ اور دیگر چھوٹی ریاستوں کی قیادتوں نے جو ردعمل ظاہر کیا‘ اس کو دیکھیں۔ کئی دہائیوں سے ان کے ماسکو کے ساتھ معمول کے تعلقات رہے ہیں۔ دوسری بڑی فوجی طاقت کے ساتھ کسی قسم کے تصادم سے گریز کرتے ہیں۔ سوویت یونین کے ہزاروں ہتھیار بھی ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا نہ کر سکے اور وہ سرد جنگ کے دوران ایک غیر جانبدارانہ پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے مغربی سرمایہ دارانہ دنیا اور سوشلسٹ بلاک کے درمیان توازن قائم کرتے رہے لیکن وہ اس حملے سے حیران رہ گئے‘ انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ مغربی فوجی اتحاد کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے مغربی دارالحکومتوں کی طرف دوڑ پڑیں تاکہ ان کی علاقائی سالمیت برقرار رہے۔ اس طرح کے نقطہ نظر سے روس کو طویل مدت میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس نے مزید ممالک کو فوجی اتحاد کی چھتری تلے پناہ لینے پر آمادہ کیا ہے جو کئی دہائیوں سے جنگیں لڑ رہا ہے اور وہ ایک ملک کے بعد دوسرے کو تباہ کر رہا ہے۔
نیٹو میں روسی ریاستوں کی شمولیت سے اسلحے اور گولہ بارود کے عالمی تاجروں میں جوش و خروش پایا جاتا ہے جو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید ہتھیار بنائیں اور فروخت کریں گے۔ اس سے نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا میں مزید کشیدگی پیدا ہونے کا امکان ہے‘ جس سے مکمل تباہی کا ایک ایسا منظر پیدا ہو گا جس سے نہ صرف زمین کے سب سے بڑے ملک بلکہ دنیا کے تمام حصوں میں ہر امن پسند کو فکر مند ہونا چاہئے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یوکرین پر حملے کا مقصد روس کو عالمی سطح پر بااثر مقام حاصل کرنے میں مدد کرنا تھا لیکن جو ایک یاد رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ حملے کبھی بھی سیاسی رہنماؤں کی ساکھ کو جلا نہیں دیتے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان کو کچھ وقتی فائدے پہنچائیں لیکن طویل مدت میں وہ کسی قوم کے لئے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ عسکریت پسندی اور جنگی مہمات جاری ہوں۔ جرمنی‘ جاپان اور اٹلی اس کی جدید مثالیں ہیں۔
ان کے رہنماؤں نے لوگوں کے ساتھ جوڑ توڑ کیا۔ انہیں ایک ایسے خونی تنازعہ میں ڈال دیا جس نے ان کے لئے اور دنیا کی دیگر ریاستوں کے لئے ذلت و تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اگر روس واقعی بین الاقوامی سطح پر اثر و رسوخ حاصل کرنا چاہتا ہے‘ تو اسے اپنے پڑوسیوں کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے انہیں دھمکیاں دینے یا کسی قسم کی ہنگامہ آرائی سے گریز کرنا چاہئے۔ اس طرح کا نقطہ نظر صرف خوف پیدا کرے گا جس سے امریکہ اور مغرب کو فائدہ پہنچے گا۔سوویت یونین بھلے ہی بے عیب ریاست نہ ہو لیکن عالمی سطح پر اسے مختلف ترقی پذیر ممالک کی حمایت حاصل رہی جو اسے 1930ء کی دہائیوں اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک ماڈل کے طور پر دیکھتے تھے۔ ’یو ایس ایس آر‘ نے نہ صرف ان اقوام کو زیادہ خودمختاری دی جو اس کے علاقائی دائرہ اختیار میں آتی ہیں بلکہ اس نے گلوبل ساؤتھ میں ان تمام ریاستوں کی مدد اور حمایت بھی کی جو مغربی سامراجی ممالک سے لڑ رہی تھیں جنہوں نے دو خوفناک جنگوں کے دوران انسانیت کی اکثریت کو محکوم بنا رکھا تھا۔
اگر کمیونسٹ ملک نہ ہوتا تو دنیا کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ آج بھی استعماری طاقتوں کے چنگل میں ہوتا۔ یہ سوویت یونین کا اثر اور کمیونسٹ انقلاب تھا جس نے بہت سی مغربی استعماری طاقتوں کو اپنی کالونیاں بنانے کی حکمت عملی ترک کرنے پر مجبور کیا۔ ماسکو نے نہ صرف افریقہ سے ایشیا تک آزادی کے جنگجوؤں کی سفارتی ذرائع سے مدد کی بلکہ بعض معاملات میں فوجی مدد بھی کی۔ بین الاقوامی سطح پر‘ سوویت یونین مظلوم کالونیوں کے لئے واحد آواز تھی جسے مغربی استعماری طاقتوں نے بے رحمی سے لوٹا تھا۔ یہ صرف دنیا کے غریب ممالک ہی نہیں تھے جہاں سوویت یونین کو بہت زیادہ حمایت حاصل ہوئی بلکہ مغربی یورپ اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ دنیا کے بہت سے حصوں کو بھی اِس کی حمایت حاصل رہی تھی۔ مثال کے طور پر اٹلی اور فرانس میں بڑی کمیونسٹ پارٹیاں تھیں جو ماسکو سے ہمدردی رکھتی تھیں۔
اسی طرح برطانیہ‘ جرمنی اور یورپ کے دیگر حصوں میں ٹریڈ یونینوں نے بھی رہنمائی‘ حمایت اور یک جہتی کے لئے روس کی طرف دیکھا۔ امریکہ میں ماہرین تعلیم اور متعدد طلبہ کی تنظیمیں بھی سوشلسٹ جمہوریہ کے لئے نرم گوشہ رکھتی تھیں۔ یہ سوویت یونین کی فوجی طاقت نہیں تھی جس نے اسے ہیروشیما اور ناگاساکی پر تباہ کن ایٹمی حملوں کے نتیجے میں پاگل امریکی حکمران اشرافیہ سے بچایا بلکہ بے پناہ عوامی دباؤ تھا جو جنگ کا مخالف تھا۔ جنگوں اور تنازعات کی مخالفت کرنے والوں میں سے بہت سے لوگ بھی سوویت یونین کے تئیں ہمدردی رکھتے تھے لہٰذا اگر ماسکو عزت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی اصل جڑوں کی طرف واپس جانا چاہئے۔ خود فوجی مہم چلانے کے بجائے نیٹو اور امریکی حملوں کی وجہ سے راکھ ہونے والی ریاستوں کی حمایت کا مظاہرہ کرے۔ اسے گلوبل ساؤتھ کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے تاکہ چھوٹی ریاستوں کو یقینی بنایا جا سکے کہ روس کی فوجی طاقت کا مقصد انہیں دھمکی دینا نہیں بلکہ مغربی تسلط اور عزائم کا مقابلہ کرنا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالستار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)