موسمیاتی تبدیلی کا منصوبہ

پاکستان میں حالیہ سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کا مظہر ہے۔ یہ صرف تنبیہ نہیں بلکہ ملک کے لئے ناقابل تلافی نقصان لایا ہے ہمیں اب سماجی و اقتصادی حالت‘ بنیادی ڈھانچے اور خطرات سے نمٹنے کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اب طرز حکمرانی پر موسمیاتی تبدیلی کے اسباب و اثرات کا تجزیہ‘ سائنسی بنیادوں پر درست اندازہ لگانے اور موسمیاتی خطرات میں تخفیف کی حکمت عملیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے‘گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2021ء کے مطابق پاکستان 2000ء سے 2019ء تک طویل مدتی موسمیاتی خطرات کے طور پر اموات اور اموات کے لحاظ سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے‘ سال دوہزاربائیس میں مون سون کی طویل بارشوں‘ طوفانی سیلابوں اور لینڈ سلائیڈنگ نے پاکستان میں مکانات‘ سڑکیں اور پل بہا دیئے ہیں اور سولہ سو سے زائد جانیں لی ہیں‘ سیلاب سے تین کروڑ تیس لاکھ (33ملین) سے زائد افراد متاثر ہیں جبکہ 80لاکھ سے زائد افراد آئی ڈی پیز بن چکے ہیں یا ہنگامی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں‘ ناقص انفراسٹرکچر‘ سیوریج سسٹم اور غیر پائیدار ترقیاتی طریقوں کی وجہ سے سیلابی ریلے کے پیچھے رہ جانے والا پانی ہیضہ‘ ٹائیفائیڈ‘ ملیریا‘ ڈینگی اور ڈائریا جیسی متعدی بیماریوں کی افزائش گاہ بنا ہوا ہے‘ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کی طرف سے کرائے گئے مطالعات ’کلائمیٹ رسک کنٹری پروفائل 2021ء‘ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو 1986ء کے مقابلے میں 2090ء کی دہائی تک 1.3ڈگری سینٹی گریڈ سے 4.9 ڈگری سینٹی گریڈ جیسے درجہئ حرارت میں ممکنہ اضافے کے ساتھ عالمی اوسط سے کافی حد تک گرمی کی شرح کا سامنا رہے گا‘ یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں سال 2035ء سے 2044ء تک ’انتہائی دریا‘ کے سیلاب سے متاثر ہونے والے تقریباً پچاس لاکھ افراد کے اضافے کا امکان ہے اور سال 2070ء تک ساحلی سیلاب سے سالانہ   اموات  میں بے پناہ  اضافہ متوقع ہے‘ پاکستان دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے طویل وسط عرض بلد برفانی تودوں (گلیشیئرز) کا گھر ہے۔ شمالی علاقوں میں گلیشیئرز پندرہ ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہیں‘ قراقرم پامیر کا خطہ بہت زیادہ برفانی تودہ ہے‘ جس میں پانچ ہزار سے زیادہ گلیشیئرز قراقرم کے سینتیس فیصد سے زیادہ علاقے کا احاطہ کرتے ہیں۔ گزشتہ دو سو برس میں پینتیس خطرناک سیلاب صرف قراقرم کے علاقے میں آئے ہیں۔ بیس سیلاب ہمالیہ میں اور سترہ بالائی سندھ میں ریکارڈ کئے گئے ہیں‘ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں تین ہزار چوالیس سے زیادہ برفانی جھیلیں ہیں‘ جہاں چھتیس سے زائد برفانی جھیلوں کو لاحق ممکنہ خطرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ وہاں اچانک بارشیں اور سیلاب سے رونما ہونے والے واقعات میں لاکھوں کیوبک میٹر پانی اور ملبہ آ سکتا ہے جس سے دور دراز اور پسماندہ پہاڑی برادریوں میں جانی و مالی اور ذریعہ معاش کے نقصانات ہوتے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران‘ گوجال ہنزہ میں وادی شمشال‘ حسن آباد ہنزہ‘مشرقی قراقرم میں شیوک ندی اور کوہ ہندوکش میں وادی چترال میں قدرتی آفات تواتر سے ظہورپذیر ہوئی ہیں‘ یہ تشویشناک بات ہے کہ کئی قدرتی آفات کا سامنا کرنے کے بعد بھی قومی موسمیاتی تبدیلی میں ایسے خطرات کی تخفیف اور موافقت کی پالیسی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ قومی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کے فریم ورک میں جامع اصلاحات‘ تخفیف اور موافقت کی حکمت عملی کو ضم کرنا ضروری ہے۔ ممکنہ خطرات‘ کٹاؤ اور جیوڈینامکس‘ موسمیاتی تبدیلیوں کی حساسیت اور نشیبی علاقوں کی آبادی پر موسمیاتی تبدیلیوں کے ممکنہ اثرات تلاش کرنے کے لئے فیلڈ پر مبنی اور خلاء پر مبنی گلیشیئر اسٹڈیز کی اشد ضرورت ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)‘ ڈیمز اینڈ بیراج سیفٹی کونسل‘ فیڈرل فلڈ کمیشن‘ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ‘ فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن‘ ای پی اے اور مقامی انتظامیہ جیسے تمام متعلقہ اداروں کے ہونے کے باوجود پاکستان قدرتی تبدیلیوں اور آفات سے ہونے والے نقصانات کم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سیلاب کے تباہ کن اثرات ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے طریقوں کے بارے میں ہمارے مجموعی نقطہ نظر کے بارے میں بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ نامناسب پالیسیاں‘ صحت کی ناقص سہولیات اور غیرمعیاری انفراسٹرکچر کی کمزوری‘ معاشی سرگرمیوں کی کمی‘ روزگار کے مواقع کی کمی اور سیاسی ترجیحات میں ماحول کو خاطرخواہ اہمیت نہ دینے نیز ذرائع ابلاغ کی توجہ کا فقدان موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے جداگانہ ہونے کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ صحت عامہ کی دستیاب سہولیات عوام کیلئے نہ ہونے کے برابر ہیں اور بہت ہی کم تعداد میں طبی عملہ حسب آبادی دستیاب ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات کی بنیادی ادویات تک رسائی بھی محدود ہے اور ہسپتالوں میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے شعبہ جات (ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹس) زندگی بچانے والی ادویات اور تکنیکی عملے کی کمی کے باعث ایک مایوس کن صورتحال پیش کر رہے ہیں‘ حکومت کو خاص طور پر ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی معاشی ترقی پر توجہ دینے اور انہیں صحت کی بنیادی سہولیات‘ آفات کے حالات سے نمٹنے کے لئے درکار آلات و انفراسٹرکچر فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ واضح ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں ملکی معیشت‘ انفراسٹرکچر‘ ماحولیات اور لوگوں کی زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہیں لیکن ہمیں ان طریقوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو ان تباہ کن اثرات کو زیادہ متحرک (اضافہ) کرتے ہیں۔ پاکستان اکنامک سروے 2021-22ء کے مطابق پاکستان کی 80فیصد سے زیادہ آبادی دریائے سندھ کے آس پاس رہتی ہے‘ جسے موسمیاتی تبدیلی‘ ماحولیاتی خطرات‘ ناقص انفراسٹرکچر اور وسائل کے انتظام کے متعدد خطرات کا سامنا ہے آبی وسائل کے ناقص انتظام کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی لاگت کا تخمینہ بارہ ارب ڈالر سالانہ ہے جو کہ ملک کی جی ڈی پی کا چار فیصد ہے!حالیہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہوئی تباہیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں ”شدید موسمی واقعات“ کی تعدد اور شدت میں اضافہ ہوگا‘ اس کے ساتھ جنوبی ایشیائی ممالک میں مون سون بارشیں بھی مسلسل اور شدید ہوں گی۔ پاکستان میں سیلاب اور خشک سالی جیسے عوامل اس لئے بھی سمجھنے ضروری ہیں کیونکہ اِن سے متعلق ہماری لاپرواہی سے زیادہ جانی و مالی نقصانات ہو رہے ہیں جو تباہ کن ہیں۔ قدرتی آفات امتیازی سلوک نہیں کرتیں۔ ہم سب خطرے میں ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نشانے پر ہیں جن کے تباہ کن اثرات کم کرنے کے طریقے تلاش کرنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک اور بالخصوص فیصلہ سازوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے (غوروخوض کی) ضرورت ہے‘ کسی بھی ملک کا ’ڈیزاسٹر سائیکل ماڈل‘ چار قسم کے اقدامات یا مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ ردعمل‘ بحالی‘ تیاری اور تخفیف۔ پہلے دو مرحلے تباہی کے ردعمل جبکہ دوسرے دو ’آفت سے نمٹنے کی تیاری‘ سے متعلق ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے‘ موجودہ صورتحال میں حکومتوں اور کمیونٹیز دونوں کے پاس آفات سے نمٹنے کے لئے وسائل اور صلاحیتوں کی کمی ہے۔ ان مسائل کا حل جامع اقتصادی ترقی اور موسمیاتی سمارٹ حکمت عملیوں کے ذریعے ممکن ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: علی رحمت شمشالی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)