مضبوط ڈالر: خارجہ پالیسی

امریکی ڈالر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قدر نے پاکستان کی قومی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں‘ ڈالر کی قیمت کا تعین کرنے کا سب سے اہم عنصر کرنسی کی مانگ (طلب) ہوتی ہے۔ اگر ڈالر کی مانگ زیادہ ہو تو اس کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اِس اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی کئی ایک وجوہات ہیں جو نہایت ہی سادہ نہیں ہیں۔ راقم الحروف حال ہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ایک اجلاس میں موجود تھا جہاں انکشاف ہوا کہ کچھ بینک مبینہ طور پر روپے کی قدر میں دانستہ کمی کر رہے ہیں کیونکہ مقامی کرنسی کی آزادانہ گراوٹ سے اِنہیں اربوں کا منافع ہوتا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ پہلے مرحلے میں آٹھ بینکوں کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں جبکہ دوسرے مرحلے میں باقی بینکوں کے خلاف بھی تحقیقات کی گئیں۔ راقم الحروف سمجھتا ہے کہ امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کا تعلق پاک امریکہ تعلقات سے ہے۔ تاریخی طور پر جب بھی امریکہ کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات بہتر رہے ہیں۔ پاکستان میں روپے کی قدر مستحکم رہی ہے۔ 1947ء میں آزادی کے وقت ایک امریکی ڈالر تین روپے اکتیس پیسے کے برابر تھا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کے دورے کی دعوت قبول کرکے نہ صرف ہماری خارجہ پالیسی کی درست سمت وضع کی بلکہ پاکستانی کرنسی کی قدر کو مستحکم کرنے میں بھی مدد کی تاہم جب 1958ء میں ایوب خان نے ملک میں مارشل لأ لگایا تو ایک امریکی ڈالر 4 روپے 76 پیسے تک پہنچ گیا۔ جنرل ایوب کے دور میں پاکستان امریکہ دوطرفہ تعلقات ہر جہت سے خوشگوار ہوئے اور ڈالر 1971ء تک مستحکم رہا بعد ازاں سانحہئ مشرقی پاکستان پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت 9روپے 90پیسے تک پہنچ گئی۔ صدر ضیا ء الحق کو بھی امریکہ کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا تھا اور ڈالر دس سے گیارہ روپے کے قریب رہا لیکن ان کی طیارے کے حادثے میں موت کے بعد ڈالر کی قیمت اٹھارہ روپے تک پہنچ گئی۔ اُنیس سو نوے کی دہائی میں ہمارے سیاستدانوں کی طرف سے امریکہ پر غیر ضروری طور پر الزام تراشیاں کی گئیں جس کی وجہ سے ڈالر 49.5 روپے تک پہنچ گیا۔ جنرل مشرف کو امریکہ کا قریبی اتحادی بھی سمجھا جاتا تھا ان کے دور (سال دوہزار) میں فی امریکی ڈالر کی قیمت 53روپے تھی اور 2008ء میں اُنہی کے دور حکومت کے اختتام پر ڈالر کی قیمت 70.5 روپے تک پہنچ گئی تاہم جنرل مشرف کے زوال کے بعد ہماری ملکی سیاست میں خاص طور پر دوہزارنو سے دوہزاراٹھارہ تک امریکہ کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ’سلالہ چیک پوسٹ‘ پر حملہ‘ نیٹو سپلائی میں کٹوتی اور ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن‘ ایسے چند واقعات ہیں جنہوں نے امریکہ کے ساتھ ہمارے دوطرفہ تعلقات کو کمزور کیا اور ڈالر دوہزاراٹھارہ تک 122روپے تک پہنچ گیا۔سال 2019ء میں عمران خان کے دور حکومت میں ڈالر کی قیمت ڈیڑھ سو روپے تک بڑھ گئی اور ان کی حکومت کے خاتمے تک بتدریج 180روپے تک پہنچ گئی۔ حکومت کی تبدیلی کے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات نے پاکستان امریکہ تعلقات میں مزید دوری پیدا کی جس کے نتیجے میں ڈالر اس سال 240روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تاہم مجھے پورا یقین ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ دورہ واشنگٹن کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور دونوں ممالک اپنی غلط فہمیوں کا خاتمہ کریں گے۔ ان کے دورے کا ایک خوشگوار اثر پاکستانی روپے کی قدر پر دیکھا جا سکتا ہے جس کی قدر مضبوط ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اس سے قبل وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی دورہ امریکہ کے دوران پاکستان کے مؤقف کو امریکہ کے سامنے جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ پاک فوج ہمیشہ پاکستان کے دفاع کیلئے آگے بڑھی ہے۔ ہمارے ملک کی سرحدیں ہوں یا نظریاتی بنیادیں یا معاشی چیلنجز مسلح افواج نے ہمیشہ نمایاں و گرانقدر کردار ادا کیا ہے‘ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ڈالر مستحکم رہے تو ہمارے سیاست دان ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات نہ دیں جس سے پاک امریکہ یا کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات خراب ہوں۔ بصورت دیگر اس کا براہ راست اثر پاکستانی کرنسی کے مقابلے ڈالر کی قدر میں اضافے کی صورت ظاہر ہوگا۔ (مضمون نگار رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)