اسحاق ڈار کی واپسی

اسحاق ڈار ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ اُنہوں وطن واپسی کے ساتھ ہی پاکستانی روپے کو کھائی سے نکالا اور اِس کی قدر میں کمی کے جاری عمل کو روک دیا ہے۔ اسحاق ڈار کی مالیاتی حکمت عملیوں نے ہمیں تین چیزیں دی ہیں۔ مستحکم روپیہ‘ قومی معاشی پالیسی کی سمت کا تعین اور اِس حکمت ِعملی کی کامیابی کا یقین جبکہ تیسری اہم چیز یہ ہے کہ عوام کو اِس بات پر اعتماد ہے کہ اسحاق ڈار ملکی معیشت سنبھال لیں گے۔ سال دوہزارتیرہ میں‘ اسحاق ڈار نے سات جون کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ دوہزارتیرہ میں‘ روپے کی اوسط برابری ایک سو ایک روپے فی ڈالر تھی۔ سال دوہزارسترہ میں‘ جب اسحاق ڈار نے وزارت ِخزانہ چھوڑی تو اُس وقت روپے کی قدر 105 روپے فی ڈالر تھی۔ لب لباب یہ ہے اسحاق ڈار 4 سال تک پاکستانی روپے کو مستحکم رکھنے میں کامیاب رہے۔موجودہ اقتصادی غیر یقینی صورتحال ’معاشی خطرات کا مجموعہ ہے اور معاشی ماہرین کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ حکومتی پالیسیاں ابھی بھی درست سمت میں آگے نہیں بڑھ رہیں اور پاکستانی روپے کا مستقبل غیر یقینی ہے۔‘ یقینی طور پر اقتصادی پالیسی کا یقین غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کی ترقی کے لئے بہت اہم ہے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان کو اعلیٰ درجے کی اقتصادی پالیسی دینے کا یقین دلایا ہے اور بہتری کی ایک اُمید پیدا ہوئی ہے۔ معیشت کو سنبھالنے میں عوام کا اعتماد ضروری ہوتا ہے۔ جب عوام اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہیں تو معاشی ترقی پر اِس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے معیشت کو سنبھالنے کی عوامی منظوری درحقیقت اقتصادی ترقی کی بلند سطح کا نتیجہ ہے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان کو سال دوہزارتیرہ سے دوہزارسترہ کے دوران چار اعشایہ چار فیصد کی اوسط سے ’جی ڈی پی‘ کی شرح نمو فراہم کی۔ اسحاق ڈار نے بنیادی طور پر تین اصلاحات و اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ روپے کی مضبوطی‘ افراط زر کی شرح کم کرنا اور شرح سود میں کمی۔ اسحاق ڈار نے گیارہ روز قبل اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ گزشتہ گیارہ دنوں کے دوران طاقتور ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں بیس روپے اضافہ ہوا ہے۔ اسحاق ڈار نے دو کام کئے ایک تو کرنسی کی اوپن مارکیٹ میں ’سٹہ بازوں اُور قیاس بازوں‘ کو ڈریا ہے اور دوسرا انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر سے کھیلنے والوں کے خلاف جارحانہ طرزعمل اختیار کیا ہے۔دور اندیشی سے کام لیا جائے تو اسحاق ڈار نے ہمیں زیادہ قیمت والا روپیہ دیا ہے جس سے پاکستانی برآمدات نسبتاً مہنگی اور درآمدات نسبتاً سستی ہو گئیں۔ نتیجتاً ہماری برآمدات بڑھنی چاہئیں اور اِن کا جی ڈی پی کے تناسب میں کردار بھی بڑھنا چاہئے۔ سال 2013ء میں جی ڈی پی کے تیرہ اعشاریہ تین فیصد برآمدات ہوا کرتی تھیں جو کم ہوکر سال دوہزارسترہ میں 8.2فیصد رہ گئیں۔ پاکستان میں کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اسحاق ڈار ناکام ہو یا اسحاق ڈار بھی اُنہی غلطیوں کو دہرائے جو اُن کے موجودہ وزارت کے دور سے قبل ہوتی رہی ہیں۔ کرنسی مارکیٹ کے ’قیاس بازوں‘ اور ’ہیرا پھیری کرنے والوں‘ کو ڈرانا قومی معاشی مفاد میں ہے۔ پاکستان کی ضرورت ایک زیادہ قیمت والا روپیہ نہیں ہے کیونکہ زیادہ قیمت والے روپے کا مطلب دو چیزیں ہوں گی: درآمدات پر مبنی کھپت میں اضافہ اور برآمدی مسابقت میں کمی۔کیا اسحاق ڈار حسب اعلان مہنگائی کی شرح کم کر سکیں گے؟ جی ہاں کیونکہ عالمی سطح پر اجناس کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ اسحاق ڈار کی جانب سے روپے کو مضبوط کرنے سے بھی مہنگائی میں کمی آئے گی۔ کیا اسحاق ڈار شرح سود کم کر سکیں گے؟ یہ واقعی ایک مشکل کام ہوگا کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اِس سے پاکستان عالمی معیشت سے الگ ہو جائے گا۔ رواں ماہ امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود صفر اعشاریہ آٹھ فیصد سے بڑھا کر ساڑھے چار فیصد کرنے کا امکان ہے۔ یورپی مرکزی بینک سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ”شرح سود میں اضافہ کرے گا۔“ پاکستان میں جہاں پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس نے افراط زر کی شرح تیئس اعشاریہ دو فیصد بتائی ہے‘ شرح سود کم کرنا درحقیقت الٹا نتیجہ خیز (تباہ کن) ثابت ہوگا۔ پاکستان کے پاس ایک وزیر خزانہ ہے جو حکمت عملی کے تحت کام کرتا ہے۔ جس کے پاس تجربہ ہے اور جسے حکمراں جماعت کا اعتماد حاصل ہے۔ ہمارے پاس ایک وزیر خزانہ ہے جس کے پاس مواصلاتی مہارت ہے۔ ہمارے پاس ایک وزیر خزانہ ہے جس کے پاس معیشت کو سہارا دینے کے لئے تجربہ اور نتائج ہیں۔ ہمارے پاس ایک وزیر خزانہ ہے جس میں صلاحیت بدرجہئ اتم موجود ہے کہ غیر معمولی چیلنجز اور چیلنجنگ ماحول کا مقابلہ کر رہا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)