ٹیکنالوجی پر منحصر ’درس و تدریسی معیشت‘ کی طرف منتقلی اور اِس سلسلے میں ترجیحات کی سمت مکمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہائی ٹیک اشیا ء(جیسا کہ الیکٹرانکس‘ آٹوموبائلز‘ انجینئرنگ کے سازوسامان‘ ادویہ سازی‘ آئی ٹی مصنوعات‘ معدنیات اور نئے مواد) کی تیاری کے لئے درکار اہل افرادی قوت کی ضروریات پورا کرنے کے لئے انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ درجے کی جامعات بنانے پر زور دینا چاہئے۔ نئے سٹارٹ اپس کو فروغ دینے کے لئے ٹیکنالوجی پارکس اور پالیسیوں کے ذریعے یونیورسٹیوں اور صنعت کے درمیان روابط مضبوط کئے جانے چاہئیں۔ اس سلسلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کردار انتہائی اہم و کلیدی ہے۔ حکومت کو نجی اداروں کو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری سے متعلق تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ لیبارٹریز کے قیام‘ افرادی قوت کی تربیت‘ ٹیکنالوجی کی منتقلی میں مدد اور منتخب اعلیٰ مصنوعات کی تیاری و برآمدگی میں سرمایہ کاری کے لئے طویل مدتی ٹیکس چھوٹ کی پیشکش کریں۔
اس تحریر میں‘ اس بات پر توجہ مرکوز کی جائے گی کہ کراچی (تقریباً 2 کروڑ 34 لاکھ) کی آبادی کے برابر ایک چھوٹا ملک تائیوان کس طرح عالمی اقتصادی مرکز بن گیا ہے تائیوان کی سالانہ برآمدات پانچ سو ارب (پاکستان کی نسبت بیس گنا زیادہ) اور فی کس آمدنی 33 ہزار ڈالر ہے۔ تائیوان نے جو پہلا قدم اٹھایا وہ یہ تھا کہ مؤثر زمینی اصلاحات لائی جائیں جس سے روایتی جاگیردارانہ و زمیندارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد ملی اور سرمایہ کے ساتھ زمینداروں کا ایک نیا طبقہ پیدا ہوا‘ جسے صنعتی اداروں میں لگایا گیا۔ زرعی معیشت سے ایک صنعت پر مبنی معیشت بنائی گئی جس میں برآمدات کی نمو کو مدنظر رکھا گیا۔ سستی محنت کی صنعتوں جیسا کہ ٹیکسٹائل یا کھلونوں کی تیاری میں شامل صنعتوں کی جگہ بھاری اور خودکار صنعت نے لے لی۔ سرکاری اداروں کی نجکاری نے صنعتی پیداوار کو زیادہ مسابقتی اور مؤثر بنانے میں مدد کی۔ 1981ء میں سنچو سائنس پارک کے قیام کے ذریعے تکنیکی ترقی کو فروغ دیا گیا۔ ابتدائی طور پر امریکہ اور بعد میں سرزمین چین سے سرمایہ کاری نے ان ترقیوں کو فروغ دیا۔
تائیوان کی اقتصادی ترقی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے پہلی ترقی کا دور اُنیس سے پچاس سے اُنیس سو باسٹھ کو ’محنت پر مبنی صنعتوں کے درآمدی متبادل‘ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسرا دور اُنیس سو باسٹھ سے اُنیس سو بیاسی کا تھا جب ’درمیانی سازوسامان کی درآمدات کے متبادل کے ساتھ برآمدی متبادل‘ تلاش کیا گیا۔ تیسرا دور اُنیس سو اَسی سے سن دوہزار کا تھا جب ”آزادی اور تکنیکی واقفیت“ کا دور تھا اور اس کے بعد کا جاری دور ’معاشی عالمگیریت‘ کا دور ہے۔ نیشنل سائنس ڈویلپمنٹ پلان 1968ء میں متعارف کرایا گیا‘ جس نے ملک کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی پالیسی کو خالص سائنس اور بنیادی تحقیق سے اپلائیڈ ٹیکنیکل ریسرچ کی طرف منتقل کیا تاکہ قومی ترقی اور ہائی ٹیک شعبوں میں برآمدات کی ضروریات پورا کی جا سکیں۔ 1979ء میں ”سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ پروگرام“ کے ذریعے ٹیکنالوجیز کی کمرشلائزیشن کو فروغ دیا گیا۔
سال 1980ء سے 2000ء کے دوران ہزاروں تائیوان کے روشن گریجویٹس کو پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تربیت کے لئے بیرون ملک بھیجا گیا اور حکومت کی سازگار پالیسیوں نے انہیں واپس آنے اور سماجی و اقتصادی ترقی میں حصہ ڈالنے پر آمادہ کیا۔ اسی طرح کی پالیسی ہم نے اس وقت شروع کی تھی جب راقم الحروف 2002-2008ء کے دوران ’ایچ ای سی‘ کا چیئرمین تھا۔ تب پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کے منظر نامے میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔ یہ اس قدر بڑی تبدیلی تھی کہ پاکستان نے فی کس تحقیقی پیداوار میں سال 2018ء کے دوران بھارت کا مقابلہ کیا۔ اب ’ایچ ای سی‘ صنعت پر مبنی تحقیق و ترقی پر زیادہ زور دے رہی ہے اور پاکستان آہستہ آہستہ ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کی طرف سفر کر رہا ہے۔ تائیوان کی ترقی کی ایک اہم خصوصیت ملٹی نیشنل کارپوریشنز کو آف شور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ شروع کرنے کے لئے راغب کرنے میں حاصل کامیابی ہے۔
سینکڑوں ملٹی نیشنلز جو اب تائیوان میں نئی ٹیکنالوجی متعارف اور اِس کی ترقی کے عمل میں شریک ہیں ان میں انٹیل‘ آئی بی ایم‘ ہاولیٹ پیکارڈ اور سونی شامل ہیں جنہوں نے تائیوان میں علاقائی تحقیق و ترقی مراکز قائم کیے ہیں‘ جو اسے دنیا میں نئی ٹیکنالوجی کی ترقی کا ایک اہم مرکز بنا رہے ہیں۔ ان سرگرمیوں کو ملٹی نیشنل انوویٹیو آر اینڈ ڈی سینٹرز کے قیام سے فروغ دیا گیا ہے۔ تائیوان میں تقریباً ستر ایسے مراکز ہیں جن میں ملٹی نیشنلز کی حمایت حاصل ہے۔ لوکل انڈسٹری انوویشن انجن پروگرام صنعتی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمدات بڑھانے اور صنعتی کلسٹرز کو تقویت دینے کے لئے شروع کیا گیا تھا۔ پاکستان کو مضبوط علمی معیشت کی طرف لیجانے کے لئے چین‘ تائیوان‘ کوریا اور سنگاپور کے وضع کردہ ماڈلز پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ہمارے پاس ایماندار‘ بصیرت رکھنے والی اور تکنیکی طور پر قابل حکومت ہونی چاہئے تاکہ ہماری سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے مستقبل کی سمتیں متعین ہو۔(بشکریہ: دی نیوز، ترجمہ: ابوالحسن امام)